کاروبار

ترسیلات زر میں تاریخی اضافہ، مراعات پر بڑھتے اخراجات حکومت کے لیے چیلنج: پاکستان میں 38.3 ارب ڈالر موصول

ترسیلات زر پر دی جانے والی مراعات کی لاگت میں 70 فیصد اضافہ، جس نے حکومت کے لیے مالی دباؤ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے۔

پاکستان میں بیرون ملک مقیم شہریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں حالیہ برسوں کے دوران غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس نے ملکی معیشت کو سہارا دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مالی سال 2025 میں ترسیلات زر کی مد میں 38.3 ارب ڈالر پاکستان کو موصول ہوئے، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے اور اس میں 27 فیصد سالانہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ پیش رفت پاکستان کو دنیا کا پانچواں اور جنوبی ایشیا کا دوسرا سب سے بڑا ترسیلات وصول کنندہ ملک بنا چکی ہے۔

تاہم، اس کامیابی کے ساتھ ہی ایک نیا چیلنج بھی سامنے آیا ہے — ترسیلات زر پر دی جانے والی مراعات کی لاگت میں 70 فیصد اضافہ، جس نے حکومت کے لیے مالی دباؤ میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا ہے۔


ترسیلات زر: معیشت کی ریڑھ کی ہڈی

پاکستان کے لیے ترسیلات زر زرمبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہیں، جو حتیٰ کہ ملکی برآمدات سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہیں۔ 2009 میں جہاں ترسیلات کا حجم صرف 7.8 ارب ڈالر تھا، وہ 2025 میں بڑھ کر 38.3 ارب ڈالر ہو چکا ہے — جو گزشتہ دہائی میں 92 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

ترسیلات زر کا یہ حجم نہ صرف درآمدی ادائیگیوں کو پورا کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے، مالی خسارے کو قابو میں رکھنے اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو سنبھالنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔


مراعات پر 124 ارب روپے خرچ، ECC کی نظرثانی

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، مالی سال 2025 میں ترسیلات پر دی جانے والی مراعات پر 124.14 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ ہیں۔ اس غیرمعمولی اضافے نے وزارت خزانہ اور اس کے ماتحت اداروں کو مجبور کیا کہ وہ اس نظام پر نظرثانی کریں۔

وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق، اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) نے اس بڑھتے مالیاتی بوجھ کو مدنظر رکھتے ہوئے ’پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو (PRI)‘ کے تحت دی جانے والی کیش انعامات کی پالیسی میں رد و بدل کی منظوری دے دی ہے تاکہ یہ نظام طویل المدت بنیادوں پر پائیدار بنایا جا سکے۔


نئی اصلاحات: انعامی رقم میں کمی، حد میں اضافہ

ECC کی منظور کردہ اصلاحات کے تحت:

  • ہر ترسیل پر دی جانے والی انعامی رقم کو یکساں طور پر 20 ریال مقرر کر دیا گیا ہے، جو اس سے قبل 20 سے 30 ریال کے درمیان دی جاتی تھی۔

  • کم از کم ترسیل کی لازمی حد 100 ڈالر سے بڑھا کر 200 ڈالر کر دی گئی ہے، تاکہ چھوٹی ترسیلات کے بجائے بڑی قانونی ترسیلات کو ترجیح دی جا سکے۔

یہ اقدامات قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں، جبکہ ترسیلات بھیجنے والے سنجیدہ صارفین کو مراعات کا اہل رکھنے کے لیے طریقہ کار کو بہتر بنایا گیا ہے۔


’ٹرانسفر ٹو کیش‘ سکیم کا کردار

سٹیٹ بینک نے اعتراف کیا ہے کہ مراعات پر اخراجات میں اضافے کی ایک اہم وجہ ’ٹرانسفر ٹو کیش انسینٹو سکیم‘ تھی، جو مالی سال 2023 اور 2024 کے اوائل میں ترسیلات میں کمی کے بعد متعارف کرائی گئی تھی۔ اس سکیم کے تحت اوورسیز پاکستانیوں کو باضابطہ ذرائع سے رقوم پاکستان بھیجنے پر نقد انعامات اور دیگر سہولیات دی گئی تھیں، جن کے اثرات اب اخراجات میں اضافے کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔


سعودی عرب: ترسیلات کا سب سے بڑا ذریعہ

پاکستان کے لیے ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ اس وقت سعودی عرب ہے، جہاں سے مجموعی ترسیلات کا 25 فیصد آتا ہے۔ اس کوریڈور کی بحالی اور مضبوطی نے جہاں ترسیلات میں اضافہ کیا، وہیں مراعات پر بھی اخراجات کو بڑھایا۔


اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مراعات کا وسیع نیٹ ورک

اوورسیز پاکستانیوں کو قانونی ذرائع سے رقوم بھیجنے پر قائل کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مختلف انفرادی و اجتماعی مراعات دی جاتی ہیں، جن میں شامل ہیں:

  • ہر قانونی ترسیل پر نقد انعام؛

  • لاٹری سکیموں میں شرکت؛

  • قومی بچت اور سرمایہ کاری بانڈز میں ترجیحی رسائی؛

  • ایئرپورٹس پر فاسٹ ٹریک امیگریشن سہولت؛

  • اہل خانہ کو صحت کارڈز اور تعلیمی وظائف۔

تاہم، ان مراعات کے نتیجے میں قومی خزانے پر بڑھتا ہوا بوجھ اب حکومت کو پالیسی اصلاحات کی جانب لے جا رہا ہے۔


پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو: وسعت اور ترقی

پاکستان ریمیٹنس انیشی ایٹو (PRI) کے قیام کے بعد باضابطہ ترسیلات کا نیٹ ورک تیزی سے پھیلا ہے۔ 2009 میں 25 مالیاتی ادارے اس کا حصہ تھے، جو 2024 تک 50 سے زائد ہو چکے ہیں۔
ان اداروں میں شامل ہیں:

  • روایتی اور اسلامی بینک؛

  • مائیکرو فنانس ادارے؛

  • ایکسچینج کمپنیاں؛

  • الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشنز۔

بین الاقوامی سطح پر بھی اس نظام کو وسعت ملی ہے۔ 2009 میں 45 ادارے پاکستان کو ترسیلات کی سہولت فراہم کرتے تھے، جو 2024 میں بڑھ کر 400 ہو چکے ہیں — صرف ایک سال میں 33 نئے ادارے شامل ہوئے۔


حکومت کے لیے دو دھاری تلوار

ترسیلات زر جہاں پاکستان کے لیے مالی استحکام کی ضمانت ہیں، وہیں ان پر دی جانے والی مراعات حکومت کے لیے ایک "دو دھاری تلوار” بن چکی ہیں۔ ایک طرف حکومت اوورسیز پاکستانیوں کو ترغیب دے کر قانونی ذرائع سے زیادہ رقوم حاصل کرنا چاہتی ہے، دوسری جانب بڑھتے اخراجات بجٹ پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ”ترسیلات زر کا موجودہ ماڈل اگرچہ کارگر ہے، لیکن اسے مالی پائیداری کے اصولوں کے تحت توازن میں رکھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔“


نتیجہ: آگے کا راستہ؟

حکومت کی کوشش ہے کہ ترسیلات زر کو جاری رکھے، نیٹ ورک کو مزید مستحکم کرے، اور اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد برقرار رکھے، مگر اس کے ساتھ ساتھ مراعات کا ایسا متوازن ماڈل ترتیب دے جس سے قومی خزانے پر دباؤ کم ہو اور حوصلہ افزائی کا عمل بھی برقرار رہے۔

ترسیلات زر اب محض ایک مالی ذریعہ نہیں بلکہ قومی سلامتی، مالیاتی خود مختاری، اور معاشی استحکام سے جڑے ایک وسیع تر بیانیے کا حصہ بن چکی ہیں — اور اسی لیے حکومت کو اس شعبے میں انتہائی حکمت اور تدبر کے ساتھ پالیسی سازی کرنا ہو گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button