
کیریبین میں امریکی جنگی جہازوں کی تعیناتی سے منشیات کی اسمگلنگ بحرالکاہل کی طرف موڑنے کا خدشہ: ماہرین کا انتباہ
"کیریبین راہداری کو محدود کرنے سے اسمگلر متبادل راستے تلاش کریں گے۔ بحر الکاہل ان کے لیے ایک پرکشش اور نسبتاً کم خطرناک آپشن بن جائے گا۔"
واشنگٹن/کویتو/کاراکاس — انسدادِ منشیات کے عالمی اقدامات کے تحت کیریبین کے سمندری راستوں پر امریکی جنگی جہازوں کی تعیناتی جہاں ایک طرف ایک فعال حکمت عملی کے طور پر سامنے آئی ہے، وہیں سیکیورٹی اور منشیات کے ماہرین نے اس اقدام کے ممکنہ منفی اور غیر ارادی نتائج سے خبردار کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کے باعث منشیات کے اسمگلنگ نیٹ ورکس اب اپنی توجہ بحر الکاہل کی طرف مرکوز کر سکتے ہیں، جس سے خطے کے کئی ممالک، بالخصوص ایکواڈور کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
کیریبین پر دباؤ، بحر الکاہل پر راستہ ہموار
ایکواڈور کے سابق آرمی انٹیلیجنس چیف ماریو پازمینو نے CNN سے بات کرتے ہوئے کہا:
"کیریبین راہداری کو محدود کرنے سے اسمگلر متبادل راستے تلاش کریں گے۔ بحر الکاہل ان کے لیے ایک پرکشش اور نسبتاً کم خطرناک آپشن بن جائے گا۔”
انہوں نے کہا کہ اسمگلر اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اب ایکواڈور کی بندرگاہوں، خاص طور پر گائیکیل کو استعمال کر سکتے ہیں، جو پہلے ہی منشیات کی اسمگلنگ کے لیے حساس علاقے تصور کی جاتی ہیں۔
ایکواڈور – نئی اسمگلنگ کا مرکز؟
اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے مطابق، ایکواڈور اب لاطینی امریکہ کے ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں منظم جرائم اور پرتشدد واقعات کی شرح خطرناک حد تک بلند ہے۔ امریکہ اور کولمبیا کے بعد، منشیات کے قبضے کے حوالے سے ایکواڈور تیسرے نمبر پر ہے۔
کولمبیا، ایکواڈور، میکسیکو اور یورپی مجرمانہ نیٹ ورکس اب بحرالکاہل کے ذریعے امریکہ اور یورپ تک منشیات کی ترسیل میں مصروف ہیں۔ ماریو پازمینو کا کہنا ہے کہ:
"یہ مسئلہ اب کولمبیا یا وینزویلا تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ منشیات ایکواڈور کی بندرگاہوں سے براہ راست بحرالکاہل کے ذریعے بھیجی جائیں گی۔”
گائیکیل بندرگاہ میں ہنگامی حالت
منشیات کی نقل و حمل میں اضافہ اور جرائم پیشہ عناصر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر، 25 اگست کو Guayaquil Port Authority نے بندرگاہ پر ہنگامی حالت کا اعلان کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ:
"عملے اور پائلٹوں کو اغواء اور حملے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، جس سے بندرگاہ کی بنیادی ڈھانچے اور سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔”
یہ صورتِ حال اس بات کی علامت ہے کہ مجرمانہ سرگرمیوں کا دباؤ تیزی سے بحرالکاہل کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
ایکواڈور کی بحری کارروائیاں اور امریکی تعاون
ایکواڈور کی بحریہ نے حالیہ مہینوں میں اپنی گشت اور انسدادِ منشیات کارروائیوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ 24 اگست کو، امریکی کوسٹ گارڈ کی مدد سے 10 ٹن منشیات ضبط کی گئیں، جو 2023 میں طے پانے والے دفاعی معاہدوں کا حصہ ہے۔
ایکواڈور کے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ نیشنل اسٹڈیز کے ڈینیئل پونٹن کے مطابق:
"پیسیفک راہداری کو کنٹرول کرنا پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ منشیات کے اسمگلر موقع کا فائدہ اٹھانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ایکواڈور اور دیگر ممالک کو مل کر کارروائی کرنی ہو گی، کیونکہ بحریہ کی صلاحیتیں محدود ہیں۔”
جرائم کے خلاف عسکری حکمتِ عملی: کیا یہ مؤثر ہے؟
بین الاقوامی منظم جرائم اور تشدد پر تحقیق کرنے والی محققہ مشیل مافی نے خبردار کیا ہے کہ عسکری حل جرائم کے خلاف کارگر نہیں بلکہ بعض اوقات الٹا اثر ڈال سکتا ہے۔ ان کے بقول:
"یہ اقدام صرف ایک نیا سیاسی تنازعہ پیدا کرے گا، مؤثر انسدادِ منشیات حکمتِ عملی نہیں۔ جب امریکہ کی توجہ مادورو حکومت پر مرکوز ہے، تو اسمگلر اپنی سرگرمیاں مزید منظم طریقے سے جاری رکھیں گے۔”
مافی کا کہنا ہے کہ اس وقت سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حکام انسدادِ بدعنوانی پر توجہ دیں، کیونکہ اسی بدعنوانی کے باعث اسمگلر سرحدی کنٹرول سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
نتیجہ: خطے کے لیے ایک نیا چیلنج
امریکی بحری مشن کا مقصد اگرچہ کیریبین میں منشیات کی ترسیل کو روکنا ہے، لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اس اقدام سے بحرالکاہل کے ممالک پر دباؤ میں اضافہ ہوگا، خصوصاً ایسے ممالک جہاں پہلے ہی ریاستی ادارے کمزور اور مجرمانہ نیٹ ورکس مضبوط ہو چکے ہیں۔
ماریو پازمینو اور دیگر ماہرین کی رائے میں، اسمگلروں کی نقل و حرکت اور حکمتِ عملی میں لچک کی وجہ سے انہیں مکمل طور پر روکنے کے لیے صرف فوجی اقدامات ناکافی ہیں۔ اس کے لیے علاقائی تعاون، شفاف حکمرانی، عدالتی اصلاحات اور بدعنوانی کے خلاف بھرپور کارروائی ناگزیر ہے۔