پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

بلوچستان: خودکش حملے کے بعد قوم پرست جماعتوں کی قربت، نیا سیاسی اتحاد ممکن؟

13 ستمبر کو اہم جماعتوں کا ایک مشترکہ سربراہی اجلاس ہوگا، جس میں اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، ایمل ولی خان اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ شریک ہوں گے

پاکستان نیوز ڈئسک:

بلوچستان میں 2 ستمبر کو بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے جلسے کے باہر ہونے والے خودکش حملے نے نہ صرف سیاسی فضا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، بلکہ اس واقعے کے بعد بلوچ، پشتون، اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک غیر معمولی یکجہتی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس سانحے اور اس کے بعد ہونے والے بھرپور احتجاج نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا بلوچستان کی سیاست میں ایک نیا سیاسی اتحاد جنم لینے جا رہا ہے، یا یہ سب کچھ ایک وقتی ردعمل ہے؟

سانحہ کوئٹہ اور اس کا پس منظر

یہ خونریز دھماکہ اس وقت ہوا جب سابق وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقع پر بی این پی کا بڑا عوامی جلسہ جاری تھا۔ اگرچہ جماعتوں کے قائدین کچھ دیر پہلے جلسہ گاہ سے گزر چکے تھے، مگر اس خودکش دھماکے نے 14 بی این پی کارکنوں اور ایک پولیس اہلکار کی جان لے لی، جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی، لیکن بلوچ قوم پرست جماعتوں نے اسے صرف دہشت گردی نہیں بلکہ سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کی سازش قرار دیا۔

سیاسی ردعمل: قوم پرست و مذہبی جماعتوں کا اتحاد

اس واقعے کے بعد نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر میں اس حملے کی مذمت کی گئی، تاہم بلوچستان کی سطح پر ردعمل غیر معمولی طور پر مؤثر رہا۔ بی این پی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پشتونخوا میپ)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، نیشنل پارٹی، تحریک انصاف بلوچستان، جماعت اسلامی اور مجلس وحدت المسلمین نے 8 ستمبر کو مشترکہ ہڑتال اور احتجاج کی کال دی۔

یہ ہڑتال بلوچستان کی حالیہ تاریخ کی سب سے کامیاب ہڑتالوں میں شمار کی گئی، جس کے دوران صوبے کے بیشتر شہروں میں کاروبار بند، سڑکیں ویران اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے متحد ہو کر احتجاجی مظاہرے کیے۔ احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور درجنوں گرفتاریوں نے ماحول کو مزید کشیدہ کر دیا۔

ایک نیا سیاسی اتحاد؟ بیانات اور عندیے

بی این پی کے مرکزی نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ کے مطابق 8 ستمبر کی ہڑتال کے دوران عوام نے جماعتوں کے اتحاد کو بھرپور حمایت دی، اور یہ سیاسی قیادت کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 13 ستمبر کو اہم جماعتوں کا ایک مشترکہ سربراہی اجلاس ہوگا، جس میں اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، ایمل ولی خان اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ شریک ہوں گے۔ اس اجلاس میں ممکنہ اتحاد اور آئندہ لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔

نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر جان محمد بلیدی نے بھی اس اتحاد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر قوم پرست جماعتیں اور دیگر جماعتیں اکٹھی ہو جائیں تو یہ بلوچستان کے عوام کے لیے بہترین ہوگا۔ ان کے بقول، ’’ہمیں بڑی جماعتوں کا ساتھ دینے کا تجربہ ہو چکا ہے، جنہوں نے ہمیشہ اقتدار کے بعد ہمیں تنہا چھوڑا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی قوت پر اعتماد کریں۔‘‘

پشتونخوا میپ کے رہنما عبدالرحیم زیارتوال نے بھی اس بات پر زور دیا کہ تحریکِ تحفظِ آئین پاکستان ایک موجودہ پلیٹ فارم ہے جسے وسعت دے کر تمام جماعتوں کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق نیا اتحاد بنانے کی ضرورت نہیں، لیکن موجودہ اتحاد کو مؤثر اور فعال بنایا جانا چاہیے۔

تاریخی تناظر: اتحاد کی تاریخ اور اسباق

بلوچستان میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ پونم اور متحدہ مجلس عمل جیسے اتحاد اگرچہ وقتی طور پر کامیاب رہے، مگر ذاتی مفادات اور قائدین کے اختلافات نے انہیں منتشر کر دیا۔ مبصرین کے مطابق بلوچستان میں سیاسی اتحاد کو برقرار رکھنا ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے، خاص طور پر جب نظریاتی، لسانی، نسلی اور جغرافیائی تقسیم واضح ہو۔

بی این پی اور نیشنل پارٹی بلوچ اکثریتی علاقوں میں جبکہ پشتونخوا میپ اور اے این پی پشتون اکثریتی علاقوں میں مضبوط ہیں۔ ایسے میں دونوں طبقات کی جماعتوں کا ایک مشترکہ سیاسی پلیٹ فارم نہ صرف بلوچستان بلکہ قومی سیاست پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج؟

مبصرین کے مطابق اگر قوم پرست جماعتیں مؤثر اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک نیا سیاسی چیلنج ہو سکتا ہے۔ بالخصوص اگر یہ اتحاد احتجاجی سیاست اور عوامی تحریکوں کا رخ اختیار کرتا ہے تو بلوچستان میں سیاسی ماحول مزید غیر یقینی ہو سکتا ہے۔ حکومت نے 8 ستمبر کی ہڑتال پر جو سخت ردعمل دیا، وہ اسی امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

مستقبل کی سمت: 13 ستمبر کا اجلاس اہم

اب نظریں 13 ستمبر کے مشترکہ سربراہی اجلاس پر مرکوز ہیں۔ کیا بی این پی، نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ اور اے این پی کوئی انتخابی اتحاد بنانے پر آمادہ ہوں گے؟ یا یہ محض وقتی یکجہتی رہے گی؟ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کا کردار بھی اہم ہو گا، کیونکہ ان کا نظریاتی پس منظر قوم پرست جماعتوں سے مختلف ہے۔

نتیجہ: اتحاد وقت کی ضرورت یا وقتی ردعمل؟

بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، معاشی بحران اور عوامی بے چینی کے پیشِ نظر جماعتوں کا اتحاد نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ عوام کی بھی یہی توقع ہے کہ انہیں ایک متحدہ قیادت فراہم کی جائے۔ تاہم، اگر ماضی کی طرح ذاتی مفادات غالب آ گئے تو یہ کوشش بھی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button