
وسطی ایشیائی ممالک اور افغانستان کے درمیان ریلوے تعاون میں پیش رفت: ترکمانستان، قازقستان اور ازبکستان کے تاریخی معاہدے
"افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت جیسے بڑے تجارتی مراکز تک پہنچنے کے امکانات قازقستان کی سرمایہ کاری کے محرک ہیں۔"
خطہ ایشیا خصوصی ڈیسک
کابل/عشق آباد/آستانہ/تاشقند
وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کو زمینی طور پر جوڑنے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ترکمانستان، قازقستان، اور ازبکستان نے افغانستان کے ساتھ ریلوے نیٹ ورک کی ترقی اور توسیع کے حوالے سے اہم معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے ساتھ طے پائے، اور ان سے خطے میں بڑھتی ہوئی معاشی و جغرافیائی قربت اور نئی تجارتی راہداریوں کی تلاش کا اشارہ ملتا ہے۔
ترکمانستان کا تورغنڈی منصوبے میں 5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ
31 جولائی 2025 کو ترکمانستان اور افغانستان کے درمیان تورغنڈی خشک بندرگاہ کی توسیع کے لیے 5 ملین امریکی ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
یہ مفاہمت افغانستان میں ترکمانستان کے سفیر ہوجا اویزوف، ترکمان ریلوے آپریٹر ڈیمیریولری کے سربراہ سردار قربانوف اور طالبان کے نائب وزیر ریلوے مولوی محمد اسحاق صاحبزادہ کی موجودگی میں ہرات میں طے پائی۔
تورغنڈی بندرگاہ افغانستان-ترکمانستان سرحد پر واقع ہے اور تورغنڈی-ہرات ریلوے کوریڈور کا اہم حصہ ہے۔
افغان وزارت تعمیرات عامہ کے مطابق، ترکمانستان اس منصوبے میں ابتدائی سرمایہ کاری کرے گا، اور آمدنی سے قسط وار واپسی کی جائے گی۔
قازقستان کی 500 ملین ڈالر کی متوقع سرمایہ کاری
اسی ماہ قازق وزیر خارجہ مرات نورتیلو نے کابل کا دورہ کیا اور تورغنڈی-ہرات ریلوے کوریڈور سے متعلق مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کی نگرانی کی۔
افغان میڈیا کے مطابق، قازقستان نے اس منصوبے میں 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، حالانکہ قازقستان کی افغانستان سے براہِ راست سرحد نہیں ہے۔
قازق نائب وزیر ٹرانسپورٹ مکسات کالیاکپاروف کے مطابق، 120 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کی تعمیر دو سال میں مکمل ہوگی۔ انہوں نے کہا:
"افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت جیسے بڑے تجارتی مراکز تک پہنچنے کے امکانات قازقستان کی سرمایہ کاری کے محرک ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ مالیاتی ڈھانچہ تیار کر لیا گیا ہے اور سرمایہ کاری کے مزید مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔
ازبکستان کا "ٹرانس افغان ریلوے” منصوبہ: 4.6 بلین ڈالر کا عظیم وژن
ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے جولائی 2025 میں کابل میں سہ فریقی مشاورت کے دوران "ٹرانس افغان ریلوے” منصوبے پر اتفاق کیا، جو ترمیز-نیاب آباد-میدان شہر-لوگر-خرلاچی تک 547 کلومیٹر لمبا ہوگا۔
ازبک نائب وزیر ٹرانسپورٹ جسوربیک چورئیف نے اس منصوبے کو "ازبکستان کا دوسرا بڑا اسٹریٹجک منصوبہ” قرار دیا۔
انہوں نے کہا:
"یہ منصوبہ ازبکستان کے لیے ایک سستی اور تیز راہداری فراہم کرے گا، جو اسے بندرگاہوں، خصوصاً گوادر اور کراچی، کے قریب لائے گا۔”
فزیبلٹی اسٹڈی کی تکمیل کو منصوبے کا پہلا اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، بین الاقوامی مالیاتی اداروں جیسے ورلڈ بینک کی شرکت طالبان حکومت کی عدم شناخت کے باعث اب تک ممکن نہیں ہو سکی۔
موجودہ پیش رفت:
اگست 2024 میں ازبکستانی حکام نے بلخ کے نیاب آباد ریلوے اسٹیشن کا افتتاح کیا اور 75 کلومیٹر پرانی لائن کی بحالی مکمل کی۔
ترکمانستان، قازقستان اور ازبکستان، تینوں افغانستان کو جنوبی ایشیا سے جوڑنے کے ایک زمینی دروازے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
خطے میں وسیع تر جغرافیائی و معاشی تبدیلی کا امکان
ان تمام اقدامات کا مقصد صرف افغانستان تک محدود نہیں بلکہ اس سے آگے پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور بحیرہ عرب تک تجارتی رسائی ہے۔
وسطی ایشیائی ریاستوں کی بندرگاہوں تک براہِ راست زمینی رسائی نہ ہونے کے باعث افغانستان کا کردار ٹرانزٹ حب کے طور پر ابھرتا جا رہا ہے۔
یہ منصوبے صرف تجارت تک محدود نہیں، بلکہ اس میں ریلوے انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی، کسٹمز کوآرڈینیشن اور سیاسی ہم آہنگی کی بھی ضرورت ہے — ایسے عوامل جو برسوں سے زیر بحث تو رہے، مگر اب عملی شکل اختیار کر رہے ہیں۔
چیلنجز: سیاسی، مالیاتی اور سیکورٹی خدشات
طالبان کی حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ کیے جانے کے باعث بین الاقوامی فنڈنگ کا حصول تاحال ممکن نہیں۔
افغانستان میں سلامتی کی غیر یقینی صورتحال بھی بڑے سرمایہ کاروں کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
علاقائی طاقتوں کی متضاد ترجیحات بھی منصوبوں میں تاخیر کا باعث بن سکتی ہیں۔
نتیجہ: افغانستان سے جڑنے کا نیا دور
ترکمانستان، قازقستان اور ازبکستان کے افغانستان کے ساتھ یہ حالیہ معاہدے واضح کرتے ہیں کہ خطے کی اقتصادی جغرافیہ میں افغانستان ایک بار پھر مرکز بن رہا ہے — چاہے عالمی سطح پر اس کی حکومت کو تسلیم کیا گیا ہو یا نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ معاہدے محض مفاہمت کی یادداشتوں تک محدود رہیں گے یا آنے والے برسوں میں ریلوے لائنوں کی دھڑکتی ریلیں، جنوب سے شمال تک تجارت، روزگار اور ترقی کا نیا باب رقم کریں گی۔