مشرق وسطیٰتازہ ترین

غزہ شہر پر اسرائیلی فضائی حملے: 32 فلسطینی شہید، بچوں سمیت کئی خاندان متاثر – انسانی بحران مزید سنگین

"یہ حملے رات گئے اچانک شروع ہوئے، ہر طرف آگ، دھواں اور چیخ و پکار تھی۔ لوگ اپنے پیاروں کو ملبے سے نکالنے کے لیے ننگے ہاتھوں سے کھدائی کر رہے تھے۔"

رپورٹ: بین الاقوامی امور ڈیسک، غزہ:
غزہ کی پٹی ایک بار پھر شدید اسرائیلی جارحیت کی لپیٹ میں ہے۔ ہفتے کے روز غزہ شہر پر اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 32 افراد شہید ہو گئے، جن میں 12 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ مقامی طبی ذرائع اور امدادی اداروں کے مطابق یہ حملے خاص طور پر غزہ کے گنجان آباد علاقوں کو نشانہ بناتے رہے، جس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ علاقے میں انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔


غزہ شہر پر تازہ حملے: عام شہری نشانہ

اسرائیلی فضائیہ نے غزہ کے مختلف محلوں میں تابڑ توڑ حملے کیے، جن میں شیخ رضوان محلہ شدید متاثر ہوا۔ ایک ہی خاندان کے 10 افراد، جن میں ایک ماں اور اس کے تین کمسن بچے شامل تھے، شہید ہو گئے۔ دیگر متاثرہ علاقوں میں الناصر، التفاح اور الشجاعیہ شامل ہیں، جہاں رہائشی عمارتوں اور بازاروں کو نشانہ بنایا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق:

"یہ حملے رات گئے اچانک شروع ہوئے، ہر طرف آگ، دھواں اور چیخ و پکار تھی۔ لوگ اپنے پیاروں کو ملبے سے نکالنے کے لیے ننگے ہاتھوں سے کھدائی کر رہے تھے۔”


عمارتوں کی تباہی: اسرائیلی مؤقف اور فلسطینیوں کا ردعمل

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کی عسکری شاخ نے کئی بلند رہائشی عمارتوں میں "نگرانی کا جدید نظام” نصب کر رکھا تھا، جس کی بنیاد پر ان عمارتوں کو "جائز فوجی ہدف” قرار دیا گیا۔ تاہم غزہ کے شہریوں اور امدادی اداروں نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ:

"یہ حملے اندھا دھند ہیں، جن کا مقصد عام شہریوں کو خوفزدہ کر کے انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔”


بچوں اور خواتین کی شہادت: انسانی المیہ

طبی حکام کے مطابق شہید ہونے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ مقامی اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے، جبکہ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے بنیادی طبی سامان بھی ختم ہونے کو ہے۔ ایک فلسطینی ڈاکٹر کے مطابق:

"ہر لمحہ قیمتی ہے، لیکن بجلی، ادویات اور طبی عملے کی کمی نے صورت حال کو بے قابو کر دیا ہے۔”


بے گھر ہونے والے خاندان: انخلا کی اپیلوں کے باوجود بے بسی

اسرائیلی فوج نے غزہ کے شہریوں سے مسلسل اپیل کی ہے کہ وہ شہر خالی کر دیں، جسے وہ "حماس کا آخری گڑھ” قرار دے رہی ہے۔ تاہم زمینی حقائق اس اپیل سے کہیں مختلف ہیں۔ امدادی اداروں کے مطابق:

  • ہزاروں افراد پہلے ہی جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں

  • کئی خاندان بار بار بے گھر ہونے کے خوف یا سفری اخراجات کی وجہ سے شہر چھوڑنے سے قاصر ہیں

  • انخلا کے دوران کئی قافلوں پر بھی حملے ہو چکے ہیں، جس سے خوف مزید بڑھ گیا ہے


عالمی ردعمل: فلسطینی ریاست کے قیام پر منقسم موقف

اس صورتحال کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر فلسطینی ریاست کے قیام کی بحث عالمی سطح پر گرم ہو گئی ہے، تاہم مغربی دنیا داخلی طور پر منقسم دکھائی دے رہی ہے۔ چند یورپی ممالک نے فلسطینی خودمختاری کی حمایت کی ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے قریبی اتحادی اب تک اسرائیلی مؤقف کے حامی نظر آتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:

"غزہ میں انسانی بحران تاریخ کے بدترین مراحل میں داخل ہو چکا ہے، لیکن سیاسی تقسیم فوری اقدامات میں رکاوٹ بن رہی ہے۔”


امدادی اداروں کی اپیل: جنگ بندی اور انسانی راہداری کی ضرورت

ریڈ کراس، اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA اور دیگر NGOs نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ:

  • فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے

  • انسانی راہداری کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں امداد پہنچائی جائے

  • زخمیوں اور بے گھر افراد کے لیے عارضی پناہ گاہیں فراہم کی جائیں


نتیجہ: غزہ ایک بار پھر آتش فشاں پر

غزہ شہر اس وقت ایک انسانی آفت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اسرائیلی حملے، شہری ہلاکتیں، تباہ حال بنیادی ڈھانچہ اور عالمی برادری کی خاموشی مل کر ایک ایسی تصویر پیش کر رہے ہیں جو نہ صرف فلسطین، بلکہ پوری دنیا کے ضمیر پر سوالیہ نشان ہے۔


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button