اسرائیلی صدر کا یورپ کو سخت پیغام: "اسرائیل سے منہ موڑنا یورپ کے اپنے مفاد کے خلاف ہے”
"میں واضح ہونا چاہتا ہوں: اسرائیل کو الگ تھلگ کرنا، بے دخل کرنا اور سزا دینا افراتفری پھیلانے والے ایجنٹوں کی چالوں کا شکار ہے۔"
بین الاقوامی امور ڈیسک:
اسرائیل عالمی تنہائی کی طرف؟ صدر ہرزوگ نے یورپ کو خبردار کر دیا
ہرزلیہ، اسرائیل — اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ایک سخت مگر سفارتی انداز میں یورپی ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل سے سفارتی فاصلہ اختیار نہ کریں، کیونکہ یہ قدم صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ یورپ کے اپنے مفادات کے بھی خلاف ہوگا۔
منگل کے روز ہرزلیہ میں واقع جرمن سفارت خانے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر ہرزوگ نے کہا کہ جو ممالک اسرائیل کو سزا دینا چاہتے ہیں، وہ دراصل "افراتفری پھیلانے والوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں”۔ ان کے مطابق، اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کو تقویت دیں گی اور عالمی استحکام کو نقصان پہنچائیں گی۔
"یہ صرف اسرائیل کا مسئلہ نہیں، یہ یورپ کی سلامتی کا سوال ہے”
ہرزوگ نے اپنی تقریر میں کہا:
"میں واضح ہونا چاہتا ہوں: اسرائیل کو الگ تھلگ کرنا، بے دخل کرنا اور سزا دینا افراتفری پھیلانے والے ایجنٹوں کی چالوں کا شکار ہے۔”
انہوں نے مزید کہا:
"یورپ کو سمجھنا چاہیے: اس وقت اسرائیل کی طرف منہ موڑنا یورپ کے اپنے مفادات سے منہ موڑنے کے مترادف ہے۔ اور ہم سب قیمت ادا کریں گے۔”
یہ بیان اس وقت آیا ہے جب اسرائیل کو غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں اور قطر پر حالیہ حملے کے بعد، بین الاقوامی سطح پر سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
یورپی یونین کی پالیسی میں تبدیلی؟
یورپی کمیشن کی صدر اروسولا وان ڈیر لیین نے گزشتہ ہفتے عندیہ دیا کہ یورپی یونین اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعاون کا از سرِ نو جائزہ لے سکتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اسرائیلی حکومت کے کچھ انتہائی دائیں بازو کے وزراء پر ممکنہ پابندیوں کی بھی بات کی۔
اس پیش رفت نے اسرائیلی قیادت میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے، اور ہرزوگ کا یہ بیان اسی تشویش کا عکس ہے۔
سائنس، ثقافت، اور تحقیق: اسرائیل کا عالمی کردار خطرے میں؟
صدر ہرزوگ نے اپنے خطاب میں دفاع سے آگے بڑھتے ہوئے اسرائیل کے عالمی کردار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا:
"ہم قیمت ادا کریں گے — سائنس اور اختراع میں، تحقیق اور ثقافت میں — لیکن سب سے بڑھ کر انتہا پسندی کے حق میں اعتدال پسندی کے اتحاد کو کمزور کر کے۔ ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یورپ نے اسرائیل کو تنہا کیا، تو یہ اعتدال پسندی کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا، جس کا فائدہ صرف شدت پسند عناصر کو ہوگا۔
فوجی کارروائیاں اور عالمی ردعمل
-
گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے وسطی علاقوں میں ایک متنازعہ کارروائی کی، جس میں درجنوں شہریوں کی ہلاکت کی رپورٹس آئیں۔
-
اس کے فوراً بعد قطر میں ایک اسرائیلی حملہ نے بین الاقوامی تعلقات میں نئی کشیدگی پیدا کی۔
ان واقعات کے نتیجے میں یورپ بھر میں عوامی احتجاج، پارلیمانی سوالات اور سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
ناروے، آئرلینڈ، اسپین، بیلجیم اور سویڈن جیسے ممالک نے اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے، اور بعض نے سفارتی سطح پر تعلقات محدود کرنے کی تجاویز بھی دی ہیں۔
یورپ میں تقسیم: دو واضح کیمپ
یورپی ممالک اس وقت دو گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں:
-
معتدل حمایت کنندگان: وہ ممالک جو اسرائیل کے دفاعی حق کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن انسانی حقوق کی پامالیوں پر خدشات رکھتے ہیں۔
-
سخت نقاد: وہ ریاستیں جو اسرائیلی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں اور فوری جنگ بندی اور احتساب کا مطالبہ کرتی ہیں۔
اسرائیلی قیادت میں تشویش: بین الاقوامی ساکھ خطرے میں
ہرزوگ کی تقریر دراصل اس بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی پر اسرائیلی قیادت کی بے چینی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس وقت اسرائیل کو:
-
فوجی دباؤ (غزہ، قطر اور ایران محاذ پر)
-
سفارتی دباؤ (یورپی تنقید اور عالمی قراردادیں)
-
تجارتی خطرات (بائیکاٹ اور پابندیاں)
-
اور سب سے بڑھ کر بین الاقوامی ساکھ کے بحران کا سامنا ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے روایتی اتحادیوں، خصوصاً یورپ اور امریکہ کے لیے بھی پالیسی کا ایک نازک موڑ بن چکی ہے۔
اب سوال یہ ہے…
-
کیا یورپ اسرائیل سے سفارتی فاصلہ مزید بڑھائے گا؟
-
یا صدر ہرزوگ کی اپیل کے بعد نرم رویہ اختیار کرے گا؟
-
کیا اسرائیل اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے گا یا دباؤ کے خلاف مزاحمت کی پالیسی اپنائے گا؟
نتیجہ: ایک نازک عالمی توازن
صدر ہرزوگ کی باتوں میں دفاع، خوف، سفارت کاری، اور عالمی طاقت کے بیانیے کا امتزاج تھا۔ ان کی اپیل صرف یورپ کے لیے ایک انتباہ نہیں بلکہ ایک پیغام بھی ہے:
"اگر دنیا نے اسرائیل کو تنہا چھوڑا، تو اس کا خمیازہ صرف اسرائیل نہیں بلکہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔”
آنے والے دنوں میں یہ واضح ہوگا کہ عالمی برادری اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا اس سے فاصلہ اختیار کرتی ہے۔



