بین الاقوامیاہم خبریں

غزہ اور فلسطینیوں کا مستقبل اقوام متحدہ کے اجلاس پر غالب، عالمی ضمیر جھنجھوڑنے والا لمحہ

"غزہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے جہاں لاکھوں انسان محصور ہیں۔"

نیو یارک – اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ سربراہی اجلاس اس سال ایک خاص پس منظر میں منعقد ہو رہا ہے، جہاں 140 سے زائد عالمی رہنما نیویارک میں جمع ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کے مسائل میں جہاں موسمیاتی تبدیلی، عالمی معیشت، اور جیوپولیٹیکل کشیدگیاں زیر بحث آئیں گی، وہیں اس بار غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کی حالت زار عالمی ایجنڈے پر غالب رہے گی۔

فلسطینیوں کی صورتحال، عالمی رہنماؤں کی توجہ کا مرکز

اس اجلاس میں غزہ کی تباہ کن صورتحال، اسرائیلی بمباری سے متاثرہ شہری زندگی، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں پر گفتگو متوقع ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں، انسانی امدادی اداروں اور کئی مسلم و ترقی پذیر ممالک کے سربراہان کی جانب سے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے مضبوط آواز اٹھانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس پہلے ہی غزہ میں انسانی بحران پر گہری تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے فریقین سے فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "غزہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکی ہے جہاں لاکھوں انسان محصور ہیں۔”

اسلامی ممالک کا متفقہ مؤقف اور عالمی مطالبہ

ذرائع کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے رکن ممالک اس موقع پر فلسطینی ریاست کے قیام، القدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے، اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کے حوالے سے مشترکہ قرارداد پیش کر سکتے ہیں۔ پاکستان، ترکی، انڈونیشیا، ملائشیا، قطر، اور دیگر مسلم ممالک فلسطینی عوام کے ساتھ مضبوط سفارتی اور اخلاقی یکجہتی کا اظہار کریں گے۔

پاکستانی وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کی تقریر میں بھی فلسطین کے مسئلے پر واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کیے جانے کی توقع ہے، جس میں اسرائیلی جارحیت کو روکے جانے اور عالمی برادری کو فوری اقدام پر زور دیا جائے گا۔

مغربی دنیا کا دباؤ اور انسانی حقوق کی دہائی

اگرچہ بعض مغربی ممالک اب بھی اسرائیل کے "حقِ دفاع” کا مؤقف اختیار کرتے ہیں، تاہم یورپ اور امریکہ کے اندر بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی، سوشل میڈیا پر احتجاج، طلبا تحریکیں، اور عالمی سول سوسائٹی کی آواز نے مغربی حکومتوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ وہ اسرائیلی مظالم پر خاموشی ترک کریں اور ایک منصفانہ حل کی جانب بڑھیں۔

برطانیہ، فرانس، اسپین، آئرلینڈ، ناروے اور بیلجیئم جیسے ممالک کے چند رہنما اس اجلاس میں فلسطینی ریاست کے حق میں بیانات دے سکتے ہیں، اور ممکنہ طور پر دو ریاستی حل کی بحالی کی حمایت کریں گے۔

انسانی امداد اور بحالی کی کوششیں زیر بحث

اجلاس کے دوران غزہ میں جاری انسانی بحران کے پیش نظر اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں جیسے ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسیف اور WHO، جنگ زدہ علاقوں میں امداد کی فراہمی اور متاثرہ افراد کی بحالی کے منصوبے پیش کریں گی۔ ان منصوبوں کے لیے فنانسنگ، راہداریوں کی دستیابی اور اسرائیلی رکاوٹوں کے خاتمے پر بھی گفتگو کی جائے گی۔

فلسطین، عالمی ضمیر کا امتحان

ماہرین کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2025 کا یہ اجلاس درحقیقت عالمی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا عالمی قیادت صرف تقاریر تک محدود رہتی ہے یا کوئی ٹھوس اور مؤثر قدم اٹھایا جاتا ہے۔ غزہ میں ہزاروں شہری، جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، انسانی ہمدردی کے لیے پکار رہے ہیں، اور اب یہ عالمی اداروں پر منحصر ہے کہ وہ انصاف، امن اور انسانی حقوق کے تقاضے پورے کریں۔


نتیجہ: فلسطینی مسئلہ عالمی ایجنڈے پر دوبارہ سرِ فہرست

اقوام متحدہ کا موجودہ اجلاس اس حقیقت کا عکاس ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد اور غزہ کا بحران اب دنیا کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا۔ یہ عالمی برادری کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ مظلوم کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے، اور انصاف کے قیام کے لیے عملی اقدامات کرے۔ اگر یہ موقع ضائع ہو گیا، تو تاریخ صرف خاموش تماشائیوں کو یاد رکھے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button