پاکستاناہم خبریں

پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ: خطے میں نئی جغرافیائی سیاسی حقیقت کا آغاز؟

"انسٹیٹیوٹ فار یورپ اینڈ سیکیورٹی پالیسی" کی ڈائریکٹر ریسرچر ویلینا چاکارووا نے اس معاہدے کو ایک "چونکا دینے والی جغرافیائی سیاسی پیش رفت" قرار دیا ہے

سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی کے ساتھ:
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے ’باہمی دفاع کے اسٹریٹجک معاہدے‘ نے بین الاقوامی سیاست، خطے کے طاقت کے توازن، اور مشرق وسطیٰ و جنوبی ایشیا کی دفاعی حکمت عملیوں میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے یہ اصول طے کیا ہے کہ ”کسی ایک ملک پر حملہ، دونوں ممالک کے خلاف جارحیت تصور کی جائے گی“۔

یہ معاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دنیا ایک نئی سرد جنگ، توانائی کی سیاست، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، اور جنوبی ایشیا میں غیر یقینی سیکیورٹی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس معاہدے کو پاکستان میں ایک بڑی سفارتی اور اسٹریٹجک کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جبکہ بین الاقوامی حلقوں میں اس کے ممکنہ اثرات پر سنجیدہ سوالات اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔


خطے پر ممکنہ اثرات اور عالمی ردعمل

مبصرین کے مطابق، یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کر سکتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب ایران، اسرائیل، ترکی، اور دیگر خلیجی ممالک اپنے اپنے جغرافیائی و سیاسی اہداف کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔

آسٹریا کے معروف ادارے "انسٹیٹیوٹ فار یورپ اینڈ سیکیورٹی پالیسی” کی ڈائریکٹر ریسرچر ویلینا چاکارووا نے اس معاہدے کو ایک "چونکا دینے والی جغرافیائی سیاسی پیش رفت” قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، یہ معاہدہ اس بات کا اظہار ہے کہ ریاض اب صرف امریکی نیوکلیئر تحفظ پر انحصار نہیں کرنا چاہتا۔

دوسری طرف سعودی سیاسی محقق مبارک العطیٰ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اچانک یا حیران کن نہیں، بلکہ پاکستان اور سعودی عرب کے 80 سالہ دفاعی تعاون کا تسلسل ہے، جو وقت کے ساتھ ایک مضبوط شراکت داری میں ڈھل رہا ہے۔


جوہری مضمرات اور "سٹریٹجک” اصطلاح کی تشریح

ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے فیلو حسین حقانی کے مطابق، معاہدے میں استعمال ہونے والی اصطلاح ’سٹریٹجک‘ ایک خاص اہمیت رکھتی ہے، جو میزائل سسٹمز اور جوہری ہتھیاروں تک کے استعمال کا اشارہ دیتی ہے۔ پاکستان، جو دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت ہے، عام طور پر اپنے جوہری پروگرام کی وضاحت کے لیے "اسٹریٹجک” کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

یہ پہلو معاہدے کو صرف روایتی دفاعی تعاون تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اسے جوہری ڈیٹرنس کے دائرے میں لے آتا ہے، جس کے خطے میں وسیع تر مضمرات ہو سکتے ہیں۔


تاریخی پس منظر اور اعتماد کی بنیاد

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی، مذہبی اور دفاعی تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔

  • 1960 کی دہائی میں پاکستانی فوج نے پہلی بار سعودی عرب میں خدمات انجام دیں۔

  • 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہرے ہوئے۔

  • 1991 کی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے مکہ و مدینہ کی حفاظت کے لیے فوجی دستہ بھیجا۔

  • 2016 میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سعودی قیادت میں قائم اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔

سرکاری سعودی پریس ایجنسی (SPA) کے مطابق، یہ معاہدہ ان تمام تعلقات کا تسلسل ہے اور ”اسلامی یکجہتی اور مشترکہ سٹریٹجک مفادات“ پر مبنی ہے۔


عالمی اتحادوں سے ہٹ کر ایک نیا راستہ؟

یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی گارنٹی کو لے کر کئی خلیجی ممالک میں شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے سیکیورٹی محقق طلحہ عبدالرزاق کے مطابق، یہ معاہدہ "مشرق وسطیٰ میں ابھرتی ہوئی خود مختار خارجہ پالیسیوں” کا مظہر ہے۔

اُن کے مطابق، خلیجی ممالک اب امریکہ پر مکمل انحصار سے ہٹ کر متنوع سکیورٹی شراکت داروں کی جانب دیکھ رہے ہیں، اور پاکستان اس میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔


اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کے امکانات

دفاعی تعاون کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے پاکستان میں 25 ارب ڈالر تک سرمایہ کاری کے ارادے کا بھی اعلان کیا ہے۔

  • سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کی جانب سے معدنیات اور پیٹرولیم سیکٹر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔

  • سعودی عرب پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں اپنے ڈپازٹس کو دو ارب ڈالر تک بڑھانے پر بھی غور کر رہا ہے۔

یہ سرمایہ کاری پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔


سعودی خودمختاری اور کثیرالجہتی تعلقات کی پالیسی

مبارک العطیٰ کے مطابق، یہ معاہدہ سعودی خودمختاری کی علامت ہے۔ ان کے بقول، سعودی عرب اب کسی ایک عالمی طاقت پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن رکھتے ہوئے، مختلف ممالک سے تعلقات کو وسعت دے رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ یہ معاہدہ نہ تو کسی دوسرے معاہدے کو منسوخ کرتا ہے اور نہ ہی کسی طاقت کے خلاف ہے، بلکہ یہ خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کی سمت ایک قدم ہے۔


دوسرے خلیجی ممالک کی ممکنہ شمولیت

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اگر جی سی سی (GCC) کے دیگر ممالک بھی ایسے کسی معاہدے میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کریں، تو پاکستان اس پر غور کر سکتا ہے۔ اس بیان سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ معاہدہ کسی وسیع تر علاقائی سکیورٹی اتحاد کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔


نتیجہ: ایک نئی جغرافیائی سیاسی جہت کی شروعات

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاع کا یہ اسٹریٹجک معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کی دوطرفہ شراکت داری کو ایک نئی سطح پر لے جاتا ہے، بلکہ یہ پورے خطے کے لیے ایک "گیم چینجر” بھی بن سکتا ہے۔

  • جہاں ایک طرف یہ معاہدہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ایک قابلِ اعتبار جوہری شراکت دار کے طور پر ابھارتا ہے،

  • وہیں دوسری طرف سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں خودمختاری اور تنوع کی ایک نئی لہر کو جنم دیتا ہے۔

اس معاہدے کے اثرات محض دفاعی یا سفارتی نہیں بلکہ اقتصادی، نظریاتی، اور جغرافیائی سیاسی سطح پر بھی طویل المدتی ہوں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button