بین الاقوامیاہم خبریں

پاکستان کی سعودی عرب میں فوجی تعیناتی کا فیصلہ: مکہ کے قریب مشترکہ ردعمل کی تربیتی مشقیں شروع کرنے کی تیاری

پاکستان کی جانب سے تعینات کیے جانے والے فوجی دستے میں ریپڈ رسپانس یونٹس، انسداد دہشت گردی کے ماہرین، فضائی دفاعی یونٹس اور سٹریٹجک مشیروں پر مشتمل ٹیمیں شامل ہوں گی۔

 وائس آف جرمنی عالمی ڈیسک:

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تاریخی دفاعی تعلقات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں، کیونکہ پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی مکہ مکرمہ کے قریب واقع سعودی عسکری تنصیبات میں اپنے فوجی اثاثے تعینات کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے مابین مشترکہ ردعمل کی تربیتی مشقوں کا آغاز کیا جا سکے۔

یہ فیصلہ حالیہ پاکستان-سعودی اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کے تسلسل میں کیا گیا ہے، جس کے تحت دونوں ممالک نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اگر کسی ایک پر جارحیت ہوتی ہے تو اُسے دونوں کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔


دفاعی تعاون میں تاریخی وسعت

ذرائع کے مطابق، پاکستان کی جانب سے تعینات کیے جانے والے فوجی دستے میں ریپڈ رسپانس یونٹس، انسداد دہشت گردی کے ماہرین، فضائی دفاعی یونٹس اور سٹریٹجک مشیروں پر مشتمل ٹیمیں شامل ہوں گی۔ یہ اہلکار سعودی افواج کے ساتھ مل کر "جوائنٹ ریپڈ ریسپانس پروٹوکولز” پر تربیت حاصل کریں گے۔

یہ اقدام نہ صرف دونوں ممالک کی دفاعی ہم آہنگی کو تقویت دے گا بلکہ مقدس مقامات کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان کے تاریخی کردار کو بھی مزید مضبوط کرے گا۔


مکہ مکرمہ کے قریب فوجی سرگرمیوں کی اہمیت

ذرائع کے مطابق فوجی اثاثے طائف اور مکہ کے درمیان واقع ایک اہم عسکری مرکز میں تعینات کیے جائیں گے، جو سعودی افواج کی مقدس مقامات کے دفاع سے متعلق تربیت اور آپریشنل تیاریوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔

سعودی وزارت دفاع نے اس اقدام کو "اسلامی اتحاد کے عزم اور خطے میں مشترکہ تحفظ کی ضمانت” قرار دیا ہے۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ تعیناتی محض ایک وقتی مشق نہیں بلکہ ایک طویل المدتی دفاعی شراکت داری کا حصہ ہے، جس میں مشترکہ مشقیں، اسلحہ سازی میں تعاون، اور معلومات کا تبادلہ شامل ہوگا۔


تاریخی پس منظر: ایک مضبوط عسکری رشتہ

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عسکری تعلقات کئی دہائیوں پر محیط ہیں:

  • 1960 کی دہائی میں پاکستان نے پہلی بار سعودی عرب میں فوجی مشیر بھیجے۔

  • 1991ء کی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے سعودی عرب میں فوجی دستے تعینات کیے تھے۔

  • 2016 میں پاکستان، سعودی قیادت میں بننے والے اسلامی عسکری اتحاد میں شامل ہوا۔

  • حال ہی میں دونوں ممالک نے ایک اسٹریٹجک دفاعی معاہدے پر دستخط کیے، جسے مبصرین نے خطے میں توازنِ طاقت کی نئی شکل قرار دیا۔


علاقائی اور بین الاقوامی اہمیت

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کی یہ تعیناتی نہ صرف سعودی عرب کے لیے ایک مضبوط عسکری حمایت ہے، بلکہ اس سے خطے میں موجود دیگر طاقتوں کے لیے بھی ایک واضح پیغام جائے گا کہ اسلامی دنیا کی بڑی افواج باہمی تعاون کے لیے متحد ہو رہی ہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد (ISSI) کے ایک سینئر تجزیہ کار کے مطابق:

"پاکستان کا فوجی اثر و رسوخ خلیجی خطے میں پہلے سے موجود ہے، لیکن یہ تعیناتی دونوں ممالک کو آپریشنل سطح پر ہم آہنگ کرنے کا پہلا بڑا قدم ہو گی۔”


فوجی تربیت، سکیورٹی اور ٹیکنالوجی کا اشتراک

ذرائع کے مطابق مشترکہ تربیتی پروگرام میں درج ذیل شعبے شامل ہوں گے:

  • انسداد دہشت گردی (Counter-Terrorism)

  • سائبر سیکیورٹی

  • ڈرون ٹیکنالوجی کا دفاعی استعمال

  • فضائی دفاعی نظام کی ہم آہنگی

  • سرحدی نگرانی و انٹیلیجنس شیئرنگ

پاکستان آرمی کی اسپیشل سروسز گروپ (SSG) کے کمانڈوز بھی تربیتی مشقوں میں حصہ لیں گے، اور سعودی افواج کو گوریلا جنگ، شہری جنگ، اور جدید اسلحے کے استعمال کی تربیت فراہم کریں گے۔


سیاسی ردعمل اور سفارتی اثرات

پاکستان میں سیاسی قیادت نے اس تعیناتی کو "امتِ مسلمہ کے اتحاد کی علامت” قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا:

"یہ اقدام محض عسکری تعلق نہیں، بلکہ اسلامی یکجہتی، باہمی اعتماد اور عالمی اسٹیج پر ایک مضبوط پیغام ہے۔”

دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی اشتراک اسلامی دنیا کی سالمیت کے لیے ایک "اسٹریٹجک لائن آف ڈیفنس” ہے۔


مستقبل کے امکانات

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تربیتی مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوتا ہے تو مستقبل میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مشترکہ دفاعی کمانڈ سینٹر، ہتھیاروں کی مشترکہ تیاری اور حتیٰ کہ اسلامی نیٹو طرز کی دفاعی فورس کے قیام پر بھی بات ہو سکتی ہے۔


نتیجہ: ایک نیا دفاعی اتحاد جنم لے رہا ہے

پاکستان کی جانب سے مکہ مکرمہ کے قریب فوجی اثاثوں کی تعیناتی نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ اس کی دیرینہ عسکری وابستگی کا تسلسل ہے، بلکہ یہ فیصلہ خطے میں بدلتی جغرافیائی سیاسی صورتِ حال کے تناظر میں بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔

یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامی دنیا کی بڑی طاقتیں اب ایک دوسرے کے ساتھ عملی میدان میں قدم سے قدم ملا کر اپنے مفادات، سلامتی اور خودمختاری کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button