یورپاہم خبریں

دو ریاستی حل کو بحال کرنے کی کوشش، اسرائیل اور امریکہ کی مخالفت،برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر ریاستِ فلسطین تسلیم کر لی

برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ یہ قدم “فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید” کو بحال کرنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے

ایجنسیاں

آسٹریلیا اور کینیڈا نے فلسطین کو باضابطہ طور پر ریاست تسلیم کر لیا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ وہ تاریخی فیصلہ لینے میں برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ شامل ہیں۔

  • برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر ریاست فلسطین کو تسلیم کر لیا ہے۔

  • یہ اعلان اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے کچھ دن پہلے کیا گیا، جس کا مقصد دو ریاستی حل کی امید کو دوبارہ زندہ کرنا بتایا گیا ہے۔

  • برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے کہا ہے کہ یہ قدم “فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید” کو بحال کرنے کی غرض سے اٹھایا گیا ہے۔کینیڈا کے وزیرِ اعظم مارک کارنی نے کہا کہ تسلیم ریاستِ فلسطین کا فیصلہ “دو ریاستی حل کے امکان کو برقرار رکھنے” کے لیے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر لیا گیا ہے، اور یہ بین الاقوامی چارٹر اور خودارادیتِ فلسطینی عوام کے حقوق کے مطابق ہے۔

  • آسٹریلوی وزیرِ اعظم انٹونی البانیز نے بھی اس فیصلے کا اعلان کیا، بیان کیا کہ آسٹریلیا نے ریاست فلسطین کی تسلیم کو قانونی اور اخلاقی اعتبار سے ضروری قدم سمجھا ہے۔


پسِ منظر اور محرکات

  • مغربی ممالک، خاص طور پر برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا، عرصے سے فلسطینی ریاست کی تسلیم کے معاملے پر محتاط موقف اختیار کیے ہوئے تھے، عام طور پر یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ قدم مذاکرات اور امن معاہدے کے بعد ہونا چاہیے۔

  • لیکن غزہ میں جنگ کی شدت، انسانی بحران، سیولین ہلاکتوں، اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع نے بین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔

  • مزيد یہ کہ، مغربی عوامی رائے اور انسانی ہمدردی کے تناظر میں فلسطینی حقوق کے لیے عالمی مطالبہ بڑھا ہے، جس نے پالیسی پر تبدیلی کے امکانات کو سہارا دیا ہے۔


متوقع اثرات اور ردِعمل

پالیسی اور قانونی اہمیت:

  • یہ تسلیم بین الاقوامی قانونی اور سفارتی اعتبار سے اہم ہے۔ تسلیم کرنے والے ملک فلسطینی ریاست کو ایک ریاستی حیثیت دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں فلسطینی حکومت کے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعلقات و تعلقِ کار مضبوط ہو سکتے ہیں۔

  • یہ قدم یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو ریاستی حل ابھی بھی قابلِ عمل تصور کیا جا رہا ہے، اور عالمی برادری اس کی بحالی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

مخالفت اور چیلنجز:

  • اسرائیل نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے، اس فیصلے کو “غیر منصفانہ” اور “حماس کے لیے انعام” قرار دیا ہے۔

  • امریکہ کی موجودہ پالیسی اس تسلیم کے خلاف رہی ہے، بعض امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ یہ وقت امن مذاکرات اور مخصوص شرائط پورے ہونے کے بعد ہونا چاہیے۔

  • قانونی و عملی سطح پر بھی چیلنجز موجود ہیں: غیر متحد فلسطینی قیادت، مغربی کنارے اور غزہ کے علاقوں کا انتظام، ریاست کی حدود کا تعین، اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق کی حفاظت۔


فلسطینی قیادت اور عوام کا ردِعمل

  • فلسطینی حکام نے تسلیم کو ایک ”ضروری قدم“ قرار دیا ہے، جو آزادی اور خودمختاری کی طرف اہم پیش رفت ہے۔

  • فلسطینی صدر محمود عباس نے تسلیم کے اعلان کو عالمی قانون اور بین الاقوامی اقدار کے عین مطابق قرار دیا، اور مطالبہ کیا کہ اسرائیل جنگ بندی، رہائی قیدیوں کی، اور انسانی امداد کی رسائی کو یقینی بنائے۔


معنوی اور سفارتی اہمیت

  • یہ فیصلہ مغربی دنیا کے اندر ایک نمایاں سیاسی اور اخلاقی موڑ ہے، خاص طور پر ان ممالک کے لیے جنہوں نے ماضی میں اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھے ہیں۔

  • یہ اعلان اس بات کی نشاندہی ہے کہ عالمی برادری جنگ بندی اور انسانی بحران کی صورتحال کو نظرانداز نہیں کر رہی، اور امن معاہدے کی طرف مزید واضح اور عملی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔


خلاصہ

برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے میں ایک نیا باب کھولنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اقدام بین الاقوامی سیاست، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے حوالوں سے اہم ہے، لیکن امن کی راہ میں متعدد رکاوٹیں باقی ہیں۔ عملی حالات، اسرائیل کی ردعمل، داخلی فلسطینی سیاسی تقسیم اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت اس فیصلے کی کامیابی کے لیے کلیدی ہوں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button