پاکستاناہم خبریں

نیویارک: وزیراعظم شہباز شریف کا موسمیاتی تبدیلی سمٹ سے خطاب — "پاکستان موسمیاتی بحران کے خلاف فرنٹ لائن پر کھڑا ہے، لیکن ذمہ دار نہیں”

"میرے ملک کو اس وقت شدید مون سون بارشوں، کلاؤڈ برسٹ، اور تباہ کن سیلاب کا سامنا ہے جنہوں نے پاکستان میں پچاس لاکھ سے زائد افراد کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔"

(رپورٹ: اقوام متحدہ اسپیشل ڈیسک)
مقام: اقوام متحدہ ہیڈکوارٹر، نیویارک

نیویارک (بین الاقوامی نامہ نگار) — وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر نیویارک میں منعقدہ موسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ نقصانات برداشت کر رہے ہیں، حالانکہ عالمی کاربن اخراج میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا:

"میرے ملک کو اس وقت شدید مون سون بارشوں، کلاؤڈ برسٹ، اور تباہ کن سیلاب کا سامنا ہے جنہوں نے پاکستان میں پچاس لاکھ سے زائد افراد کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔”

انہوں نے عالمی برادری کو یاد دہانی کرائی کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے موسمیاتی بحران کے خطرناک اثرات جھیل رہا ہے، جن میں 2020 کے تباہ کن سیلاب نمایاں ہیں، جن سے ملک کو 30 ارب ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔


"پاکستان ذمہ دار نہیں، لیکن سب سے زیادہ متاثر ہے”

شہباز شریف نے عالمی قائدین کو مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ:

"پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن اس کے باوجود ہم موسمیاتی تبدیلی کی سنگین ترین قیمت ادا کر رہے ہیں۔ یہ ایک ماحولیاتی ناانصافی ہے، اور اس پر عالمی ضمیر کو بیدار ہونا ہو گا۔”

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ صرف موسمیاتی خطرات نہیں بلکہ ان خطرات سے نمٹنے کے لیے درکار وسائل اور انصاف تک رسائی بھی ہے۔


پاکستان کا ماحولیاتی وژن: پائیدار ترقی کی طرف مضبوط قدم

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کے موسمیاتی وژن اور اقدامات پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا:

  • پاکستان سنہ 2023 تک گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں 15 فیصد کمی کا ہدف حاصل کرنے پر کام کر رہا ہے۔

  • مجموعی ہدف 50 فیصد تک اخراج کی کمی ہے۔

  • سنہ 2035 تک قابل تجدید توانائی اور ہائیڈرو پاورز کے ذریعے 62 فیصد توانائی حاصل کی جائے گی۔

  • 2030 تک ایٹمی توانائی کی پیداوار کو 1200 میگاواٹ تک بڑھایا جائے گا۔

  • ٹرانسپورٹ کے 30 فیصد شعبے کو ماحول دوست توانائی پر منتقل کیا جائے گا، جس کے لیے 3000 الیکٹرک چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔

  • ماحول دوست زراعت کو فروغ دیا جائے گا، اور ایک ارب درخت لگانے کا ہدف مکمل کیا جائے گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان صرف زبانی دعووں پر نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات پر یقین رکھتا ہے، اور اسی لیے قابلِ تجدید توانائی، گرین ٹیکنالوجی، اور پائیدار انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔


"قرض اور قرض… حل نہیں ہیں”

اپنے خطاب کے اختتام پر وزیراعظم نے عالمی مالیاتی نظام پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا:

"میری آخری لائن یہ ہے: قرض، اور قرض، اور ان پر مزید قرض — یہ مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ ہمیں موسمیاتی انصاف چاہیے، امداد نہیں۔ ہمیں شراکت داری چاہیے، مشروط قرضے نہیں۔”

انہوں نے عالمی برادری، ترقی یافتہ ممالک، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور کاربن کے بڑے اخراج کنندگان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ماحولیاتی وعدوں پر عمل درآمد کریں، ترقی پذیر ممالک کو مالیاتی، تکنیکی اور فنی مدد فراہم کریں تاکہ وہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں برابر کے شراکت دار بن سکیں۔


"پاکستان تیار ہے، مگر دنیا بھی تیار ہو”

شہباز شریف نے کہا:

"پاکستان موسمیاتی بحران کے حل کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ لیکن ہم یہ کام اکیلے نہیں کر سکتے۔ ہمیں عالمی تعاون، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مالیاتی انصاف کی اشد ضرورت ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اگر عالمی برادری سنجیدہ ہے تو یہ وقت الفاظ سے عمل کی طرف بڑھنے کا ہے۔


پس منظر: ایک خطرناک حقیقت

پاکستان حالیہ برسوں میں متعدد قدرتی آفات کا شکار رہا ہے:

  • 2022 کے سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر کیا۔

  • 2020 کے بعد ہر سال غیرمعمولی موسمیاتی واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

  • ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کے اُن دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔


نتیجہ: عالمی برادری کے لیے لمحہ فکریہ

وزیراعظم پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق خطاب عالمی فورمز پر موسمیاتی انصاف کی آواز بن کر ابھرا ہے۔ یہ خطاب صرف پاکستان کی نمائندگی نہیں، بلکہ دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اجتماعی اپیل ہے کہ موسمیاتی بحران کو نظر انداز کرنے کا وقت گزر چکا — اب عمل کا وقت ہے۔


مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button