امریکہ سے مذاکرات ایران کے مفاد میں نہیں: آیت اللہ خامنہ ای کا دوٹوک مؤقف
"ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں۔ ہمارا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ جوہری ہتھیار ہمارے نظریاتی اور اسٹریٹجک اصولوں کے خلاف ہیں۔"
(رپورٹ: بین الاقوامی امور ڈیسک – تہران کورسپانڈنس)
ذرائع: سپریم لیڈر میڈیا آفس، IAEA، Reuters، UNGA، Al Jazeera، IRNA
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکہ کے ساتھ براہِ راست جوہری مذاکرات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات ایران کے مفاد میں نہیں اور بالآخر ایک "بند گلی” کی صورت اختیار کر لیں گے۔ انہوں نے یہ بات ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام میں کہی جو ایران کے سرکاری میڈیا پر نشر کیا گیا۔
یہ بیانات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب ایران پر دوبارہ جوہری پابندیاں عائد کیے جانے کے خطرات منڈلا رہے ہیں، اور تہران، یورپی سفارتکاروں کے ساتھ آخری لمحات کی سفارتی کوششوں میں مصروف ہے۔
"افزودگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں” — خامنہ ای
آیت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا، چاہے کتنا ہی عالمی دباؤ کیوں نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا:
"امریکی فریق کہتا ہے کہ آپ کو بالکل بھی افزودگی نہیں کرنی چاہیے، لیکن ہم اس دباؤ کے آگے نہ پہلے جھکے اور نہ ہی اب جھکیں گے۔ ہم کسی بھی معاملے پر دباؤ قبول نہیں کریں گے۔”
خامنہ ای نے ایک بار پھر اس مؤقف کا اعادہ کیا کہ ایران کا ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کے مطابق:
"ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت نہیں۔ ہمارا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ جوہری ہتھیار ہمارے نظریاتی اور اسٹریٹجک اصولوں کے خلاف ہیں۔”
امریکہ سے مذاکرات: "ناقابلِ تلافی نقصان”
سپریم لیڈر نے امریکہ کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کو نہ صرف غیر مؤثر بلکہ نقصان دہ قرار دیا:
"امریکہ سے جوہری معاملات پر براہِ راست مذاکرات نہ صرف فائدہ مند نہیں بلکہ موجودہ حالات میں ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔ امریکہ کا اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔”
ایرانی رہبر کے بیانات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ تہران ویانا معاہدے (JCPOA) کی بحالی کے لیے براہ راست واشنگٹن سے بات چیت کے امکان کو مسترد کر رہا ہے، جب تک کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی نہ لائے۔
سفارتی محاذ پر ایران کی متحرک کوششیں
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی یورپی ممالک کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ جوہری معاہدے کی بحالی اور پابندیوں کی واپسی کو روکنے کے لیے کوئی قابلِ قبول فارمولا تلاش کیا جا سکے۔
دوسری جانب ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزیشکیان نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہیں۔ ان کی موجودگی بین الاقوامی سطح پر ایران کی پالیسی میں ممکنہ "نرمی” کی علامت سمجھی جا رہی ہے، لیکن خامنہ ای کے تازہ بیانات سے واضح ہو گیا ہے کہ جوہری امور میں حتمی فیصلہ سپریم لیڈر ہی کرتے ہیں۔
عالمی اداروں کی تشویش اور متحرک کوششیں
اسی دوران عالمی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر رائیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ:
"ہمارے معائنہ کاروں کا ایک وفد ایران روانہ ہو رہا ہے تاکہ وہ ممکنہ معاہدے کی صورت میں فوری ردعمل دینے کے لیے تیار رہیں۔”
انہوں نے کہا کہ ایجنسی ایران، یورپی طاقتوں اور امریکہ کے ساتھ "گہری بات چیت” میں مصروف ہے۔ گروسی نے متنبہ کیا:
"ہمارے پاس صرف چند گھنٹے یا زیادہ سے زیادہ چند دن ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ کوئی پیش رفت ممکن ہے یا نہیں۔”
IAEA کے مطابق ایران کی جانب سے افزودگی کی سطح 60 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، جو جوہری ہتھیاروں کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح کے بہت قریب ہے۔
خامنہ ای کے بیانات کا سیاسی پس منظر
ماہرین کے مطابق خامنہ ای کے یہ بیانات اندرونی و بیرونی دونوں سطحوں پر اہم پیغام دیتے ہیں:
-
اندرونِ ملک ان بیانات کا مقصد نئی حکومت کو یہ باور کرانا ہے کہ جوہری پالیسی پر کوئی نرمی قابلِ قبول نہیں۔
-
بیرونی دنیا کے لیے پیغام ہے کہ ایران خودمختار پالیسی پر قائم ہے اور امریکہ پر انحصار نہیں کرے گا۔
-
یہ بیانات ممکنہ معاشی دباؤ اور پابندیوں کے خدشے کے باوجود مزاحمتی پالیسی کی توثیق ہیں۔
نتیجہ: جوہری معاہدہ یا مزید محاذ آرائی؟
خامنہ ای کے بیانات نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ ایران اپنی جوہری پالیسی میں کوئی پیچھے ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ دوسری جانب، عالمی طاقتیں خاص طور پر یورپی یونین اور IAEA، ایران کو کسی معاہدے کی طرف لانے کے لیے آخری سفارتی کوششیں کر رہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ:
-
کیا ایران کسی نرم معاہدے پر رضامند ہوگا؟
-
کیا امریکہ اور مغرب کسی نئے فارمولے پر ایران کو قائل کر پائیں گے؟
-
یا پھر دنیا ایک نئے ایٹمی بحران کے دہانے پر کھڑی ہے؟
آنے والے چند دنوں یا گھنٹوں میں اس کشمکش کا ابتدائی رخ واضح ہونے کی توقع ہے۔



