
وائس آف جرمنی اردو نیوز نمائندہ خصوصی:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد میں لندن میں مقیم ریسرچر ڈاکٹر شمع جونیجو کی موجودگی سے متعلق سوشل میڈیا پر اٹھنے والے سوالات اور تنازعات کے بعد دفتر خارجہ نے سرکاری وضاحت جاری کرتے ہوئے اُن کے کسی بھی سرکاری حیثیت میں وفد کا حصہ ہونے کی تردید کر دی ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کے سرکاری وفد کی سربراہی وزیراعظم شہباز شریف نے کی، اور وفد کی سرکاری فہرست وزیر خارجہ کے دستخط سے جاری کی گئی تھی، جس میں ڈاکٹر شمع جونیجو کا نام شامل نہیں ہے۔
خواجہ آصف کا مؤقف، سوشل میڈیا پر سوالات
یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں اپنی تقریر کے دوران ڈاکٹر شمع جونیجو کے اُن کے پیچھے بیٹھنے سے متعلق اٹھنے والے سوالات کا حوالہ دیا۔
اپنے بیان میں وزیر دفاع نے کہا:
"اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وزیراعظم کی مصروفیت کے باعث ان کی جگہ میں نے تقریر کی۔ یہ خاتون یا کوئی اور میرے پیچھے کیوں بیٹھا، یہ دفتر خارجہ کی صوابدید تھی اور ہے۔”
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ:
"فلسطین کے مسئلے سے میرا جذباتی تعلق 60 برس پر محیط ہے، ابو ظبی بینک میں کام کے دوران میرے کئی فلسطینی دوست اور ساتھی بنے جن سے آج بھی رابطہ ہے۔ میرے خیالات اسرائیل اور صیہونیت کے بارے میں بالکل واضح ہیں: یہ نفرت کے سوا کچھ نہیں۔”
تاہم خواجہ آصف نے ڈاکٹر شمع جونیجو سے متعلق وضاحت دینے سے انکار کرتے ہوئے لکھا:
"یہ خاتون کون ہیں، وفد میں ہمارے ساتھ کیوں تھیں، اور میرے پیچھے کیوں بیٹھیں؟ ان سوالات کا جواب دفتر خارجہ ہی دے سکتا ہے، میرے لیے مناسب نہیں کہ ان کی جانب سے کوئی وضاحت دوں۔”
دفتر خارجہ کی وضاحت: نام نہ فہرست میں تھا، نہ منظوری دی گئی
اس معاملے پر دفتر خارجہ نے اپنی وضاحتی پوسٹ میں واضح طور پر کہا:
"اس خاتون کی وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھنے کی منظوری وزیر خارجہ کی جانب سے نہیں دی گئی تھی، اور نہ ہی وہ پاکستان کے سرکاری وفد کا حصہ تھیں۔”
اس بیان نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا جن میں کہا جا رہا تھا کہ ڈاکٹر شمع جونیجو اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا باقاعدہ حصہ تھیں یا انہیں کسی سرکاری حیثیت میں وہاں مدعو کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر تنازع: اسرائیل سے متعلق ماضی کے بیانات زیر بحث
اس تنازع کی جڑ اُس وقت بنی جب ڈاکٹر شمع جونیجو کی اقوام متحدہ میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے پیچھے بیٹھنے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ اس کے بعد صارفین نے اُن کے پرانے ٹویٹس شیئر کرنے شروع کر دیے جن میں وہ مبینہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت کرتی نظر آتی تھیں۔
مزید تنقید اُس وقت بڑھی جب 21 ستمبر کو ڈاکٹر شمع جونیجو نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ وہ مئی 2025 سے وزیر اعظم پاکستان کی مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ یہ ٹویٹ بعد ازاں ڈیلیٹ کر دی گئی، مگر اس کا اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کیا جاتا رہا۔
حکومتی سطح پر خاموشی، عوامی سطح پر بے چینی
اس معاملے نے نہ صرف سیاسی حلقوں میں بلکہ عوامی سطح پر بھی تشویش پیدا کی۔ مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے سوال اٹھایا کہ اگر شمع جونیجو وفد کا حصہ نہیں تھیں، تو انہیں اقوام متحدہ کی اتنی اہم نشست پر کس حیثیت میں بٹھایا گیا، اور وہ وہاں کس کے کہنے پر موجود تھیں؟
یہ سوال بھی زیرِ بحث رہا کہ ایسی شخصیت جو ماضی میں متنازع بیانات دے چکی ہو، وہ پاکستان جیسے حساس خارجہ پالیسی رکھنے والے ملک کی نمائندگی یا قربت میں کیوں نظر آئی؟
ڈاکٹر شمع جونیجو کا ردعمل تا حال سامنے نہیں آیا
اس پورے معاملے پر اب تک ڈاکٹر شمع جونیجو کا کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں کس حیثیت میں موجود تھیں، یا وزیر دفاع کے پیچھے بیٹھنے کے لیے انہیں کس نے اجازت دی۔ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی اس حوالے سے خاموشی نظر آتی ہے، البتہ ان کے ماضی کے متنازع ٹویٹس اب بھی سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔
تجزیہ: دفتر خارجہ کی پوزیشن مضبوط، مگر سوالات برقرار
تجزیہ کاروں کے مطابق، دفتر خارجہ کی وضاحت اگرچہ بروقت اور واضح ہے، لیکن اس معاملے نے ادارہ جاتی نگرانی، رسائی، اور پروٹوکول کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم پر کسی بھی غیر سرکاری یا غیر مصدقہ فرد کی موجودگی نہ صرف سفارتی طور پر نقصان دہ ہو سکتی ہے بلکہ ملک کی بین الاقوامی ساکھ کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔
خلاصہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ڈاکٹر شمع جونیجو کی موجودگی اور ان کے ماضی کے متنازع بیانات کے بعد پیدا ہونے والے تنازع پر دفتر خارجہ نے واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے ان کی کسی بھی سرکاری حیثیت میں شرکت کی تردید کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر تنقید کے باوجود متعلقہ حکام کی بروقت وضاحت نے معاملے کی شدت کو کم ضرور کیا، مگر اس واقعے نے حکومتی وفود میں شمولیت کے طریقہ کار اور پسِ پردہ اثر و رسوخ کے سوالات کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔



