پاکستاناہم خبریں

اڈیالہ جیل کے باہر سینئر صحافی سے ناروا سلوک پر قومی اسمبلی میں ہنگامہ، صحافیوں کا واک آؤٹ، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا اظہار افسوس

"صحافیوں کا کام تنقید کرنا اور سچ کا آئینہ دکھانا ہے، اس کو برداشت کرنا جمہوری رویہ ہے۔ اگر ہم صحافیوں کو نشانہ بنائیں گے، تو اس کا منفی اثر پورے سیاسی و جمہوری نظام پر پڑے گا۔"

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) — وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیر کے روز قومی اسمبلی کا ماحول اُس وقت کشیدہ ہوگیا جب پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (PRA) سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اعجاز احمد کے ساتھ اڈیالہ جیل کے باہر پیش آنے والے نامناسب واقعے کے خلاف صحافیوں نے ایوان سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔

واقعے نے صحافت اور سیاست کے باہمی تعلقات پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، اور مختلف جماعتوں کے پارلیمانی نمائندگان نے ایوان میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اس معاملے پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے واقعے کو "افسوسناک اور قابلِ مذمت” قرار دیا۔


"صحافیوں کا کام آئینہ دکھانا ہے، تنقید خوشدلی سے لینی چاہیے” — وزیر قانون

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

"سیاست اور صحافت کا آپس میں گہرا رشتہ ہے، لیکن ہمیں وضع داری اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جو کچھ سینئر صحافی اعجاز احمد کے ساتھ اڈیالہ جیل کے باہر ہوا، وہ انتہائی افسوسناک ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ:

"صحافیوں کا کام تنقید کرنا اور سچ کا آئینہ دکھانا ہے، اس کو برداشت کرنا جمہوری رویہ ہے۔ اگر ہم صحافیوں کو نشانہ بنائیں گے، تو اس کا منفی اثر پورے سیاسی و جمہوری نظام پر پڑے گا۔”


"سینئر لیڈر کی جانب سے نازیبا زبان، سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا رجحان خطرناک”

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ:

"اگر کسی سینئر سیاسی لیڈر کی جانب سے غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جائے، یا سوشل میڈیا پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جائے تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی صحافی کو نقصان پہنچتا ہے تو ذمہ داری کس پر ہو گی؟"

انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کو برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اور اپنے حامیوں کو بھی مشتعل کرنے سے باز رکھنا چاہیے۔


سپیکر قومی اسمبلی کی مداخلت، وفد کو بلانے کی ہدایت

پریس گیلری سے صحافیوں کے احتجاج کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے صورتحال کو سنبھالنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں سے کہا کہ وہ پریس گیلری میں جا کر صحافیوں سے ملاقات کریں اور ان کے تحفظات دور کریں۔

سپیکر نے بتایا کہ:

"PRA کا وفد میرے پاس تحریری شکایت لے کر آیا ہے، جسے سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، اس کی آزادی اور احترام سب کی ذمہ داری ہے۔”


پیپلز پارٹی کی شازیہ مری کی حمایت: "رپورٹنگ جرم نہیں، نشانہ بنانا شرمناک ہے”

ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا:

"یہ ایک سنگین واقعہ ہے۔ اعجاز احمد ایک سینئر صحافی اور صحافتی اقدار کے حامل فرد ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا گیا، تصاویر کے ذریعے ہراساں کیا گیا۔ رپورٹنگ کرنا کوئی جرم نہیں۔”

انہوں نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے صحافیوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے اور اس رجحان کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کیا جانا چاہیے۔


سیاسی برداشت اور صحافتی آزادی کا چیلنج

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں ایک بڑا سوال اٹھایا:

"کیا سیاستدانوں کی زبان اور رویہ جمہوری ہے؟ کیا ہم تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟”

ان کا کہنا تھا کہ جمہوری نظام میں اختلاف رائے، تنقید اور آزادانہ رپورٹنگ بنیادی ستون ہیں، اور اگر سیاستدان صحافیوں کے خلاف تحقیر آمیز زبان استعمال کریں گے تو یہ عمل نہ صرف آزادی صحافت بلکہ ریاستی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔


پس منظر: اڈیالہ جیل کے باہر پیش آیا کیا؟

ذرائع کے مطابق سینئر صحافی اعجاز احمد اڈیالہ جیل کے باہر رپورٹنگ کے سلسلے میں موجود تھے، جہاں ایک سیاسی رہنما کی طرف سے ان کے ساتھ غیر مناسب زبان استعمال کی گئی اور ان کی تصاویر کو سوشل میڈیا پر منفی انداز میں شیئر کیا گیا۔ اس اقدام کو صحافتی برادری نے سخت ناراضی سے لیا، جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران صحافیوں نے واک آؤٹ کر کے پرزور احتجاج ریکارڈ کرایا۔


تجزیہ: کیا سیاسی قیادت صحافیوں سے برابری کا سلوک کرے گی؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سیاسی قیادت صحافیوں کے ساتھ احترام کا رویہ نہیں اپناتی، تو صحافت پر دباؤ بڑھے گا اور جمہوریت کمزور ہوگی۔ ایسے واقعات صرف صحافیوں کے لیے نہیں، بلکہ آزاد جمہوریت کے لیے خطرہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا محض اسمبلی میں اظہار افسوس کافی ہے؟ یا حکومت، اپوزیشن اور متعلقہ جماعتیں ایسے واقعات کے خلاف کوئی ٹھوس ضابطہ اخلاق بنانے کی طرف بڑھیں گی؟


نتیجہ: الفاظ کی جنگ سے گریز، جمہوریت کے وقار کا تحفظ ضروری

پارلیمنٹ میں پیش آنے والا یہ واقعہ ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاست اور صحافت کو ایک دوسرے کے مکمل احترام کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ تنقید، اختلاف اور سوالات صحافت کا حق ہیں، اور سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ انہیں خوشدلی سے قبول کرے۔

صحافتی آزادی کو دبانا جمہوریت کی بنیادیں ہلانے کے مترادف ہے، اور اس روش سے نہ صرف ریاستی ادارے بلکہ پوری قوم متاثر ہو سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button