
امریکا میں حکومتی شٹ ڈاؤن نافذ: ہزاروں ملازمین معطل، سیاسی ڈیڈلاک طویل بحران میں بدل گیا
ریپبلکن پارٹی جو اس وقت کانگریس کے دونوں ایوانوں پر قابض ہے، حکومت کو 21 نومبر تک چلانے کے لیے مختصر مدتی فنڈنگ بل پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہی
واشنگٹن ڈی سی – امریکی حکومت نے فنڈنگ کے معاملے پر کانگریس اور وائٹ ہاؤس کے درمیان شدید اختلافات کے بعد اپنے بیشتر سرکاری امور معطل کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں ’شٹ ڈاؤن‘ نافذ ہو گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اس تعطل کو ایک "طویل، تھکا دینے والا اور مہنگا بحران” قرار دے رہے ہیں، جو نہ صرف ہزاروں وفاقی ملازمین کی تنخواہوں کو متاثر کرے گا بلکہ اہم اداروں کی کارکردگی کو بھی مفلوج کر سکتا ہے۔
شٹ ڈاؤن کی ابتدا: سیاسی کشمکش کا نتیجہ
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، شٹ ڈاؤن کا آغاز منگل اور بدھ کی درمیانی شب 12:01 بجے ہوا، جب گزشتہ مالی سال کی مدت ختم ہو گئی اور نیا بجٹ منظور نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی فنڈنگ بند ہو گئی۔
ریپبلکن پارٹی جو اس وقت کانگریس کے دونوں ایوانوں پر قابض ہے، حکومت کو 21 نومبر تک چلانے کے لیے مختصر مدتی فنڈنگ بل پر اتفاق رائے حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب ڈیموکریٹس نے اس بل کی اس وقت تک حمایت سے انکار کر دیا جب تک کہ میڈیکیڈ میں ہونے والی حالیہ کٹوتیاں واپس نہ لی جائیں، جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے متعارف کردہ ‘ون بگ بیوٹی فل بل’ کا حصہ تھیں۔
شٹ ڈاؤن کے اثرات: لاکھوں ملازمین متاثر، ادارے مفلوج
شٹ ڈاؤن کا سب سے بڑا اثر وفاقی ملازمین پر پڑا ہے:
7.5 لاکھ سے زائد "نان-ایکسپٹڈ” ملازمین کو معطل یا "فرلو” کر دیا گیا ہے، جنہیں شٹ ڈاؤن کے دوران تنخواہ نہیں دی جائے گی۔
"ایکسپٹڈ” ملازمین، جن میں سیکیورٹی، دفاع اور ہنگامی سروسز کے اہلکار شامل ہیں، کام تو کرتے رہیں گے لیکن تنخواہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے پر ملے گی۔
کنٹریکٹ اسٹاف (جیسے صفائی یا کینٹین عملہ) کو شٹ ڈاؤن کے دوران کوئی ضمانت نہیں کہ انہیں بعد میں تنخواہ دی جائے گی۔
کانگریس کی بجٹ آفس کے مطابق اس تعطل سے روزانہ تقریباً 400 ملین ڈالر کی تنخواہوں کا نقصان ہوگا۔
کن اداروں پر اثر پڑے گا؟
سوشل سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن: پنشن اور معذوری کی سہولیات جاری رہیں گی، لیکن 12% عملہ معطل ہو جائے گا۔
میڈیکیئر اور میڈیکیڈ: کام جاری رکھیں گے۔
ایف بی آئی، سی آئی اے، ڈی ای اے، کوسٹ گارڈ: کام کریں گے مگر تنخواہ بعد میں ملے گی۔
یو ایس پوسٹل سروس (USPS): معمول کے مطابق کام کرے گی کیونکہ یہ اپنے فنڈز خود کماتی ہے۔
ایئر ٹریفک کنٹرولرز اور ٹی ایس اے: ڈیوٹی جاری رکھیں گے لیکن تنخواہ مؤخر ہو جائے گی۔
عدالتیں: کچھ دنوں کے بعد محدود ہو سکتی ہیں۔
2 ملین فوجی اہلکار اور نیشنل گارڈ: تنخواہ کے بغیر ڈیوٹی پر رہیں گے۔
فیما (FEMA): 4 ہزار سے زائد ملازمین معطل، مگر ایمرجنسی فنڈز دستیاب ہیں۔
سیاسی محاذ آرائی: دونوں جماعتوں کا مؤقف
ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ وہ میڈیکیڈ میں کٹوتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، اور حکومت کی برطرفی کی تیاری کو "سیاسی دھمکی” قرار دے رہے ہیں۔
ٹرمپ کا مؤقف ہے کہ شٹ ڈاؤن کی ذمہ داری ڈیموکریٹس پر عائد ہوتی ہے اور یہ ایک موقع ہے کہ "ایسی بہت سی فضول اسکیموں اور اداروں کو ختم کیا جائے جو صرف ڈیموکریٹس کی ترجیحات کی نمائندگی کرتے ہیں۔”
ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس موقع پر کچھ وفاقی اداروں، جیسے محکمہ تعلیم، کو بند کرانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
معاشی اثرات: مارکیٹ محتاط، عوام پریشان
اگرچہ امریکی اسٹاک مارکیٹ نے اس خبر پر معمولی مثبت ردعمل دیا، ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ:
شٹ ڈاؤن سے افراط زر اور کساد بازاری کے خدشات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
عوامی سروسز میں تعطل اور بے یقینی کا ماحول عوامی اعتماد کو کمزور کر سکتا ہے۔
فوجی اہلکار، خفیہ ایجنسیاں اور ایمرجنسی سروسز بغیر تنخواہ کے کام کریں گی، جس سے اخلاقی اور سماجی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
پس منظر: امریکا میں شٹ ڈاؤن کی روایت
2018 میں ٹرمپ کے دور حکومت میں تاریخ کا سب سے طویل 35 روزہ شٹ ڈاؤن ہوا تھا۔
اس دوران 9 وفاقی محکمے مکمل یا جزوی طور پر بند ہوئے تھے۔
لاکھوں امریکی ملازمین کو قرض لینا پڑا، رشتہ داروں پر انحصار کرنا پڑا، اور کئی فوڈ بینک سے مدد لینے پر مجبور ہو گئے تھے۔
کیا ہوگا آگے؟
اب نگاہیں کانگریس کی آئندہ کارروائی پر ہیں:
اگر ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کسی متفقہ فنڈنگ بل پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں، تو حکومت جلد بحال ہو سکتی ہے۔
اگر ڈیڈلاک جاری رہا تو شٹ ڈاؤن مزید ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے، جس سے معاشی، سماجی اور ادارہ جاتی بحران گہرا ہو سکتا ہے۔
نتیجہ: ایک بحران، جس کی قیمت عوام ادا کریں گے
امریکی حکومت کا یہ شٹ ڈاؤن ایک مرتبہ پھر اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ سیاسی کشمکش کا سب سے بڑا نقصان عام شہری اور سرکاری ملازمین کو ہوتا ہے۔ جبکہ کانگریس اور وائٹ ہاؤس میں بجٹ پر بحث جاری ہے، لاکھوں لوگ بے یقینی، مالی دباؤ، اور نوکری کے خوف میں مبتلا ہیں۔