پاکستاناہم خبریں

کشمیر میں عوامی احتجاج پر وزیراعظم شہباز شریف کا ردعمل: پُرامن حل کی کوششیں تیز، انٹرنیٹ بحالی اور انصاف کی ہدایات

"پُرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے، لیکن امن عامہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔"

اسلام آباد/مظفرآباد (خصوصی رپورٹ) — پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جاری عوامی احتجاج، پرتشدد جھڑپوں اور انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے پیش نظر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اعلیٰ سطحی ردعمل دیتے ہوئے تحمل، مذاکرات اور فوری ریلیف اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ وزیراعظم نے ملک کی سیاسی اور انتظامی قیادت پر زور دیا کہ حالات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور عوام کے جائز مطالبات کو سنا جائے۔


پُرامن احتجاج کا حق، لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں: وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے اپیل کی کہ وہ پُرامن رہیں اور احتجاج کے دوران کسی بھی قسم کے تشدد یا املاک کو نقصان سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا:

"پُرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے، لیکن امن عامہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔”

انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ وہ مظاہرین سے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کریں اور عوامی جذبات کا احترام کریں۔ کسی بھی مقام پر غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔


ہلاکتوں پر تشویش، شفاف تحقیقات کا حکم

حالیہ جھڑپوں میں ہونے والی ہلاکتوں اور سینکڑوں زخمیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نے شفاف تحقیقات کا حکم دیا ہے اور متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ متاثرہ خاندانوں تک فوری امداد پہنچائی جائے۔

کشمیر کی حکومت کے مطابق مظاہروں کے دوران اب تک 9 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 3 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، جب کہ سینکڑوں مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والے اہلکار زخمی ہوئے۔


اعلیٰ سطحی مذاکراتی کمیٹی کا قیام

وزیراعظم شہباز شریف نے عوامی جذبات اور مطالبات کے حل کے لیے مذاکراتی کمیٹی کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔ اس کمیٹی میں شامل اہم رہنما:

  • سینیٹر رانا ثناء اللہ

  • وفاقی وزیر سردار محمد یوسف

  • وفاقی وزیر احسن اقبال

  • سابق صدر آزاد کشمیر مسعود خان

  • مشیر وزیراعظم قمر زمان کائرہ

کمیٹی کو فوری طور پر مظفرآباد روانہ ہونے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کے ذریعے دیرپا اور پائیدار حل نکالا جا سکے۔


ایکشن کمیٹی کے مطالبات اور ڈیڈلاک

جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطابق احتجاج کا آغاز گزشتہ سال 8 دسمبر کو حکومت سے کیے گئے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ کمیٹی نے 38 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے جس میں شامل ہیں:

  • اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی

  • تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر کی بہتری

  • اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ

  • جنگلات کی کٹائی کی روک تھام

  • پاکستان میں مقیم مہاجرین کی 12 نشستوں کا خاتمہ

ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے قبل حکومت پانچ دن سے بند موبائل اور انٹرنیٹ سروس بحال کرے اور مظاہرین کی ہلاکتوں پر مقدمات درج کیے جائیں۔


انٹرنیٹ و موبائل سروس کی بندش سے عوام شدید متاثر

احتجاج سے ایک روز قبل، 28 ستمبر کی دوپہر سے کشمیر بھر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے، جس سے نہ صرف شہریوں کے درمیان رابطے منقطع ہو گئے بلکہ صحافت اور معلومات تک رسائی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ بندش کا دائرہ خیبرپختونخوا کے ملحقہ علاقوں تک بھی پھیل چکا ہے۔

صحافیوں کو مظفرآباد سے رپورٹس بھیجنے کے لیے مانسہرہ یا بالاکوٹ تک کا سفر کرنا پڑ رہا ہے، جس سے میڈیا کی آزادی پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔


وزیراعظم کی ایکشن کمیٹی سے تعاون کی اپیل

وزیراعظم شہباز شریف نے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے میں تعاون کریں اور جلد از جلد اپنی سفارشات وزیراعظم آفس کو بھجوائیں تاکہ بروقت اور مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔


کشمیر کے وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش

ادھر آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس میں عوامی ایکشن کمیٹی کو باضابطہ مذاکرات کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور کمیٹی میں صرف دو نکات پر ڈیڈلاک ہے، جو آئینی ترمیم سے متعلق ہیں، جبکہ دیگر نکات پر کافی حد تک اتفاق رائے موجود ہے۔


عوامی ردعمل اور آگے کا لائحہ عمل

احتجاجی مظاہرین، جن میں بڑی تعداد طلبہ، نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین کی ہے، بدھ کو مظفرآباد کی جانب قافلوں کی شکل میں روانہ ہوئے۔ باغ سے آنے والے قافلے کا دھیرکوٹ کے قریب سکیورٹی فورسز سے تصادم بھی ہوا، جس کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔

حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان آنے والے دنوں میں مذاکرات فیصلہ کن ہوں گے، جن پر علاقے کے سیاسی مستقبل، استحکام اور عوامی فلاح کا انحصار ہوگا۔


نتیجہ

موجودہ صورتحال میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے پرامن مذاکرات، ریلیف اقدامات اور عوامی آواز کو سننے کی پالیسی مثبت قدم ہے، تاہم انٹرنیٹ سروس کی بحالی، شفاف تحقیقات، اور عملی اقدامات کے بغیر عوامی اعتماد بحال ہونا مشکل ہے۔

عوام، صحافت، سول سوسائٹی اور عالمی برادری کی نظریں اب ان مذاکرات کے نتائج اور شفافیت پر مرکوز ہیں۔ پاکستان اور کشمیر دونوں کے لیے یہ ایک نیا امتحان ہے جس میں جمہوریت، گورننس اور عوامی خدمت کی اصل روح کا مظاہرہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button