پاکستاناہم خبریں

’گلوبل صمود فلوٹیلا 2025‘ پر اسرائیلی حملہ، پاکستانی شرکاء کی گرفتاری – عالمی ردعمل اور انسانی حقوق کی پامالی پر شدید مذمت

"غزہ میں 2.3 ملین سے زائد انسان گزشتہ 18 سال سے قید جیسی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں ادویات، خوراک، ایندھن اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔"

ناصر خان خٹک-اسلام آباد – خصوصی رپورٹ

فلسطینی عوام کے لیے انسان دوست امدادی مشن پر روانہ ہونے والے ’گلوبل صمود فلوٹیلا 2025‘ کو اسرائیلی بحری افواج نے رات کی تاریکی میں بین الاقوامی پانیوں میں گھیر کر روک دیا۔ اسرائیلی کارروائی کے دوران درجنوں امدادی کارکنوں، مبصرین اور میڈیا نمائندگان کو گرفتار کر لیا گیا، جب کہ امدادی سامان ضبط اور کچھ کشتیوں پر مبینہ طور پر طاقت کا استعمال بھی کیا گیا۔
یہ مشن سپین سے روانہ ہوا تھا، جس کا مقصد تھا کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی محاصرے کو انسانی بنیادوں پر چیلنج کرتے ہوئے ادویات، خوراک اور ضروری سامان پہنچایا جائے۔


پاکستانی شرکاء بھی گرفتار، سینیٹر مشتاق احمد خان، پیر مظہر سعید شاہ اور عزیر نظامی شامل

اس مشن میں پاکستان کی بھی نمائندگی کی گئی، اگرچہ یہ شرکت سرکاری نہیں تھی، لیکن شریک شخصیات نے ذاتی حیثیت میں پاکستانی عوام کے جذبات کی نمائندگی کی۔ ان میں:

  • سابق سینیٹر مشتاق احمد خان (جماعت اسلامی)

  • پیر مظہر سعید شاہ (وزیر اطلاعات، آزاد کشمیر)

  • سید عزیر نظامی (صحافتی و انسانی حقوق کے کارکن، مبصر)

شامل تھے۔ اطلاعات کے مطابق سینیٹر مشتاق احمد خان کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے، جنہوں نے فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے اس مشن کی قیادت کی اور ’سیو غزہ تحریک‘ کے تحت پاکستان میں مسلسل مہم بھی چلا رکھی تھی۔


فلوٹیلا کو بین الاقوامی پانیوں میں روکا گیا

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق، فلوٹیلا میں شامل 13 کشتیوں کو اسرائیلی بحریہ نے گھیرے میں لے کر روک دیا۔ کئی کشتیوں پر اسرائیلی کمانڈوز سوار ہوئے اور عملے کو گرفتار کر لیا۔
فلوٹیلا کے منتظمین کے مطابق یہ کارروائی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ مشن نہ صرف پرامن تھا بلکہ اسے متعدد انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی مبصرین کی حمایت حاصل تھی۔


فلوٹیلا کا مقصد: دنیا کو یاد دہانی کہ غزہ کا محاصرہ غیر انسانی ہے

فلوٹیلا میں شریک کارکنان، مبصرین اور رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد دنیا کو یاد دلانا تھا کہ:

"غزہ میں 2.3 ملین سے زائد انسان گزشتہ 18 سال سے قید جیسی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں ادویات، خوراک، ایندھن اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت ہے۔”

اس مشن میں شامل پاکستانی وفد نے بارہا اس بات کو دہرایا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ محض زبانی ہمدردی نہیں بلکہ عملی یکجہتی بھی ضروری ہے۔


وزارتِ خارجہ پاکستان کا شدید ردعمل

پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس واقعے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی کارروائی کو غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی قرار دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا:

"امدادی مشن پر جانے والے پاکستانیوں کی حفاظت اور فوری رہائی کی اسرائیلی حکومت ذمہ دار ہے۔”

پاکستان نے عالمی برادری اور اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور غزہ کے محاصرے کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں۔


 عالمی سطح پر بھی مذمت، اسرائیل پر دباؤ

اسرائیلی کارروائی کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سمیت متعدد عالمی اداروں نے سخت مذمت کی۔
یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی رہنماؤں نے شرکاء کی فوری رہائی اور امدادی سامان کی غزہ منتقلی کی اجازت کا مطالبہ کیا۔
سعودی عرب، ترکی، قطر، جنوبی افریقہ، ناروے اور آئرلینڈ نے اس اقدام کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر عالمی قوانین کی پاسداری کی اپیل کی۔


’فلسطینی عوام تنہا نہیں‘: پاکستانی عوام کا ردعمل

پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر #FreeFlotillaActivists، #StandWithGaza اور #PakForPalestine جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ فلوٹیلا مشن کی بھرپور حمایت کی۔
کراچی، لاہور، پشاور اور اسلام آباد میں مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے، جہاں شرکاء نے نہ صرف سینیٹر مشتاق احمد خان اور دیگر کی رہائی کا مطالبہ کیا بلکہ اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔


 پس منظر: کیوں ضروری ہے فلوٹیلا مشن؟

2007 سے غزہ اسرائیلی محاصرے میں ہے، جہاں:

  • بجلی صرف چند گھنٹوں کے لیے دستیاب ہے

  • پانی، خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے

  • تعمیراتی سامان بند، تعلیمی ادارے تباہ، اسپتالوں پر بمباری

’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ جیسے مشن، ان انسانی بحرانوں کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے وقتاً فوقتاً منظم کیے جاتے ہیں۔


نتیجہ: کیا دنیا جاگے گی؟

فلوٹیلا پر اسرائیلی کارروائی نے ایک بار پھر دنیا کو غزہ کی صورت حال کی سنگینی یاد دلائی ہے۔
پاکستانی شرکاء کی گرفتاری نے قوم کو متحد کیا ہے اور ایک بار پھر فلسطینی کاز کے لیے عوامی حمایت کو زندہ کر دیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عالمی طاقتیں اور اقوام متحدہ محض بیانات پر اکتفا کرتی ہیں یا عملی اقدام بھی کریں گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button