
برلن (خصوصی رپورٹ) — جرمنی ہر سال تین اکتوبر کو "یوم اتحاد” (Tag der Deutschen Einheit) کے طور پر مناتا ہے، جو 1990ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے دوبارہ اتحاد کا علامتی دن ہے۔ یہ دن نہ صرف جرمنی کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے، بلکہ اس نے یورپ میں سرد جنگ کے خاتمے اور جمہوریت کی فتح کی ایک نئی مثال بھی قائم کی۔
1945 سے 1990 تک: ایک منقسم قوم کی کہانی
دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کی شکست کے بعد، 1945ء میں فاتح اتحادی طاقتوں — امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین — نے جرمنی کو چار علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ جلد ہی یہ تقسیم صرف جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر بھی گہری ہوتی چلی گئی۔
1949ء میں مغربی زونز سے فیڈرل ریپبلک آف جرمنی (FRG) اور مشرقی زون سے جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک (GDR) کی تشکیل عمل میں آئی۔ مغرب میں جمہوری نظام فروغ پایا جبکہ مشرق میں سوویت یونین کے زیر اثر سوشلسٹ حکومت قائم ہوئی، جس میں اظہارِ رائے، آزاد نقل و حرکت، اور سیاسی آزادیوں پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔
مشرقی جرمنی میں جبر اور بغاوت
GDR کے شہری سخت نگرانی، سیاسی سنسرشپ اور ریاستی کنٹرول میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ جو کوئی بھی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا، وہ سزاؤں، قید، اور خفیہ ادارے ’شتازی‘ کی نگرانی کا شکار بن جاتا۔ لیکن 1980 کی دہائی کے آخر میں، لوگوں میں بے چینی بڑھنے لگی۔ وہ مغربی جرمنی جیسی آزادی اور خوشحالی کے خواہاں تھے۔
گورباچوف اور مشرقی یورپ میں نئی ہوائیں
سوویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف کی اصلاحات — پریسٹرائیکا (معاشی اصلاحات) اور گلاسناسٹ (شفافیت) — نے مشرقی یورپ کے ممالک میں جمہوریت کی تحریکوں کو جِلا بخشی۔ برعکس اپنے پیشروؤں کے، گورباچوف نے مشرقی بلاک میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں کو فوجی طاقت سے دبانے سے انکار کر دیا۔
دیوار برلن کا خاتمہ: 9 نومبر 1989
نومبر 1989ء میں مشرقی جرمنی کے مختلف شہروں میں پرامن مظاہروں کی ایک لہر اٹھی۔ بالآخر 9 نومبر 1989ء کو دنیا نے ایک تاریخی منظر دیکھا جب دیوار برلن کھول دی گئی — وہ دیوار جو برسوں سے دو مختلف نظریات، نظاموں اور عوام کو الگ کیے ہوئے تھی۔ اس واقعے نے نہ صرف GDR اور FRG کے اتحاد کی راہ ہموار کی بلکہ سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان بھی کیا۔
لیکن اتحاد کا دن 9 نومبر کیوں نہیں؟
اگرچہ دیوار برلن کا گرنا جرمن اتحاد کی اصل بنیاد تھا، تاہم 9 نومبر کو قومی دن کے طور پر چننے سے گریز کیا گیا۔ اس کی ایک بڑی وجہ 1938ء کی وہی تاریخ تھی جب نازی جرمنی میں "کرسٹل ناخٹ” کے نام سے یہودیوں کے خلاف منظم حملے، ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ اور قتل عام کا آغاز ہوا تھا۔ اس سیاہ یاد کے ساتھ جشن منانے کو اخلاقی طور پر نامناسب سمجھا گیا۔
اس لیے 3 اکتوبر 1990 کو، جب GDR باضابطہ طور پر FRG میں ضم ہوا، اسی دن کو قومی دن کا درجہ دے دیا گیا — جو اب جرمنی کا واحد قومی دن بھی ہے۔
تین اکتوبر: کیسے منایا جاتا ہے؟
یومِ اتحاد کو جرمنی بھر میں پرامن اور باوقار انداز سے منایا جاتا ہے۔ اگرچہ آتش بازی یا بڑے پیمانے پر جشن کا رواج نہیں، لیکن ہر شہر میں تقریبات، ثقافتی پروگرامز، تقاریر اور یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہر سال ایک وفاقی ریاست اس دن کی مرکزی تقریبات کی میزبانی کرتی ہے۔
2025ء میں یہ اعزاز جرمن صوبے زارلینڈ کے حصے میں آیا ہے، جہاں خصوصی تقاریب، نمائشیں اور ثقافتی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
مزید برآں، تین اکتوبر کو ملک بھر میں مساجد کا ’اوپن ڈے‘ بھی منایا جاتا ہے، جس میں غیر مسلم شہریوں کو مساجد کا دورہ کرنے، اسلام کے بارے میں جاننے اور مسلمانوں کے ساتھ مکالمہ قائم کرنے کی دعوت دی جاتی ہے — یہ جرمن معاشرے میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ایک مثبت مثال ہے۔
آزادی اور اتحاد کی یادگار: خواب ابھی تک نامکمل
نو نومبر 2007 کو جرمن پارلیمان نے "یادگار آزادی و اتحاد” کی تعمیر کی منظوری دی تھی۔ منصوبے کے تحت برلن کے مرکزی علاقے ہمبولٹ فورم کے سامنے ایک 50 میٹر طویل انٹر ایکٹیو والکنگ اسٹرکچر تعمیر ہونا تھا — جو جمہوریت اور اتحاد کی علامت ہوتا۔
تاہم، 2025ء میں بھی اس منصوبے پر کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ تعمیراتی کمپنیوں، ڈیزائنرز اور وفاقی اداروں کے درمیان اختلافات اور بیوروکریٹک رکاوٹوں نے اس یادگار کو التوا کا شکار بنا رکھا ہے۔ فی الحال اس کی تکمیل کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی جا سکی۔
کیا جرمنی واقعی متحد ہے؟ عوامی رائے کا جائزہ
جرمنی کے اتحاد کو 35 سال ہونے کو ہیں، مگر ایک حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی آج بھی کچھ حد تک منقسم ہے — کم از کم ذہنی اور معاشی سطح پر۔
صرف 35 فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ مشرقی اور مغربی جرمنی نے "بڑی حد تک ساتھ مل کر ترقی کی ہے۔”
مشرقی جرمنی میں صرف 23 فیصد افراد کو لگتا ہے کہ جرمن واقعی ایک قوم بن چکے ہیں، جبکہ مغربی حصے میں یہ شرح 37 فیصد ہے۔
50 فیصد شہریوں کا ماننا ہے کہ اجرت، پنشن، اثاثوں کی عدم برابری اور سماجی عدم مساوات اب بھی دونوں حصوں کو مکمل طور پر یکجا ہونے سے روک رہی ہیں۔
نتیجہ: اتحاد مکمل، لیکن مساوات کا سفر جاری
جرمنی کا دوبارہ اتحاد ایک تاریخی کامیابی تھی، لیکن اب بھی بہت سے جرمن شہری اس حقیقت سے نبرد آزما ہیں کہ اتحاد کے بعد مساوات کا قیام ایک طویل المدتی عمل ہے۔ جہاں ایک طرف آزادی، جمہوریت اور خوشحالی نے ملک کو مضبوط بنایا، وہیں دوسری طرف معاشی تفاوت اور سماجی تقسیم جیسے مسائل اب بھی ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
تاہم تین اکتوبر کا دن صرف ماضی کی یاد نہیں، بلکہ ایک موقع ہے کہ جرمن شہری اتحاد کے حقیقی معنی پر غور کریں — اور آنے والے وقت میں ایک متوازن، ہم آہنگ اور مساوی معاشرے کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔