
غزہ امن منصوبہ: ٹرمپ کی حماس کو ڈیڈ لائن، بصورت دیگر ’’مکمل قیامت‘‘ کی دھمکی
’’اگر یہ آخری موقع ضائع کر دیا گیا، تو پھر حماس کو مکمل قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی۔‘‘
واشنگٹن/یروشلم/غزہ — سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو ایک سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تنظیم نے ان کے پیش کردہ غزہ امن منصوبے کو قبول نہ کیا تو ’’مکمل قیامت‘‘ برپا کی جائے گی، جس کی شدت کا دنیا نے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔
ٹرمپ نے یہ بیان اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر جاری کیا اور واضح کیا کہ حماس کے پاس اتوار کی شام 6 بجے (واشنگٹن وقت) تک کا وقت ہے، جو عالمی وقت کے مطابق رات 10 بجے بنتا ہے۔ انہوں نے لکھا:
’’اگر یہ آخری موقع ضائع کر دیا گیا، تو پھر حماس کو مکمل قیامت کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی۔‘‘
ٹرمپ کے اس بیان نے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے اور سفارتی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
20 نکاتی امن منصوبہ: جنگ بندی، یرغمالیوں کا تبادلہ، حماس کا غیر مسلح ہونا
ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے درمیان طے پانے والے 20 نکاتی مجوزہ امن منصوبے کی تفصیلات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اس منصوبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
فوری جنگ بندی کا نفاذ۔
یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ: حماس کے پاس موجود باقی اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی۔
غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا۔
حماس کا غیر مسلح ہونا اور عسکری صلاحیت سے مکمل دستبرداری۔
غزہ کی عبوری حکومت: ایک بین الاقوامی ادارے کی نگرانی میں، فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی نگران حکومت قائم کی جائے گی۔
اس منصوبے کو قطر اور مصر کے توسط سے حماس تک پہنچایا گیا ہے، جنہوں نے گزشتہ کئی برسوں سے اسرائیل اور فلسطینی دھڑوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا ہے۔
حماس کا ابتدائی ردعمل: ’’غور و خوض جاری ہے‘‘
29 ستمبر کو ٹرمپ اور نیتن یاہو کے اعلان کے بعد، حماس کے قریبی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ تنظیم کو امن منصوبہ موصول ہو چکا ہے۔ البتہ انہوں نے بتایا کہ سرکاری جواب دینے سے پہلے محتاط جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حماس کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا:
’’ہم کسی بھی منصوبے پر فوری طور پر ردعمل دینے کے بجائے، تمام سیاسی، سفارتی اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلہ کریں گے۔‘‘
تاہم، ٹرمپ کی طرف سے دی گئی مختصر ڈیڈ لائن اور سخت زبان نے حماس کی قیادت کے لیے فیصلہ کن لمحہ پیدا کر دیا ہے۔
پس منظر: حماس کا حملہ اور جنگ کا آغاز
یہ کشیدگی 7 اکتوبر 2023 کو اس وقت شدت اختیار کر گئی جب حماس اور اس کے اتحادی دھڑوں کے سینکڑوں مسلح افراد نے جنوبی اسرائیل میں اچانک حملہ کر دیا۔ اس حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر غزہ منتقل کر دیا گیا۔
اس کے جواب میں، اسرائیل نے غزہ پر ہمہ جہتی فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس میں زمینی، فضائی اور بحری حملے شامل تھے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اس جنگ کے دوران اب تک 66,000 سے زائد فلسطینی، جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، مارے جا چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر، زخمی یا شدید ذہنی صدمے کا شکار ہیں۔
بین الاقوامی برادری کا ردعمل
ٹرمپ کی نئی مداخلت اور دھمکی آمیز بیان پر بین الاقوامی برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس، چین اور ترکی سمیت متعدد ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ:
فریقین پرامن مذاکرات کو موقع دیں۔
فریقین ایسے زبان یا اقدامات سے گریز کریں جو مزید تصادم کا باعث بن سکتے ہیں۔
انسانی جانوں کا تحفظ عالمی برادری کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا:
’’غزہ اس وقت دنیا کی بدترین انسانی تباہی سے گزر رہا ہے۔ فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‘‘
امریکی سیاست میں ٹرمپ کی چال؟
سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے یہ "امن منصوبہ” اور "قیامت کی دھمکی” دراصل 2024 کے صدارتی انتخابات کی مہم کا حصہ بھی ہو سکتی ہے۔ وہ ایک بار پھر اپنی قیادت، فیصلہ سازی اور بین الاقوامی طاقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ امریکی ووٹروں کے سامنے خود کو ایک ’’فیصلہ کن عالمی لیڈر‘‘ کے طور پر پیش کر سکیں۔
کیا امن قائم ہو سکے گا؟
حماس کی جانب سے رسمی جواب کا انتظار جاری ہے، جبکہ ٹرمپ کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن تیزی سے قریب آ رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ:
اگر حماس نے منصوبہ مسترد کیا تو اسرائیل کی عسکری کارروائیوں میں شدید اضافہ متوقع ہے۔
اگر کچھ شرائط پر رضامندی ظاہر کی گئی تو مزید مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
کسی بھی صورت، عام فلسطینی شہریوں کی حالت مزید ابتری کا شکار ہو سکتی ہے۔
نتیجہ: امن یا قیامت؟
ٹرمپ کا پیغام واضح اور خطرناک ہے۔ "امن کرو، یا قیامت کے لیے تیار ہو جاؤ۔” اس دھمکی کے پیچھے موجود حقیقی عزائم، سفارتی اثرات، اور علاقائی استحکام پر اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ تاہم، غزہ کے شہری، جو پہلے ہی قیامت جیسی تباہی سے گزر رہے ہیں، اب ایک اور ممکنہ بحران کی زد میں آ گئے ہیں۔