
ایرک ڈین کا عزم: "آخری سانس تک ALS سے لڑوں گا” – معروف اداکار کی واشنگٹن میں وکالت اور ذاتی جدوجہد
اکثر اوقات، مریضوں کی تشخیص میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ وہ ان کلینیکل ٹرائلز کا حصہ ہی نہیں بن پاتے، جن سے انہیں فائدہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی / لاس اینجلس — مشہور ہالی وڈ اداکار ایرک ڈین، جنہوں نے "گریز اناٹومی” اور HBO کی معروف سیریز "یوفوریا” میں شاندار اداکاری کے جوہر دکھائے، اب ایک بالکل مختلف میدان میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں — ALS جیسے جان لیوا مرض کے خلاف۔
اپریل 2025 میں امیئوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (ALS) کی تشخیص کے بعد، ایرک ڈین نہ صرف اپنی صحت کے لیے لڑ رہے ہیں بلکہ ہزاروں دیگر متاثرہ افراد کے لیے بھی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اسی مشن کے تحت، اس ہفتے وہ واشنگٹن ڈی سی پہنچے، جہاں انہوں نے غیر منفعتی تنظیم I AM ALS کے ساتھ مل کر امریکی قانون سازوں سے ملاقات کی اور بیماری سے متعلق تحقیق اور مریضوں کو فوری علاج کی فراہمی کے لیے حکومتی مدد کا مطالبہ کیا۔
ALS کیا ہے؟
ALS، جسے "لو گیریگ کی بیماری” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک اعصابی نظام کو تباہ کرنے والی بیماری ہے، جو مریض کے پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے اعصاب کو متاثر کرتی ہے۔ یہ مرض وقت کے ساتھ مریض کو مکمل طور پر مفلوج کر دیتا ہے، اور بالآخر سانس لینے جیسے بنیادی افعال کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ ایک لاعلاج بیماری ہے جس کے خلاف نہایت محدود تھراپیز موجود ہیں۔
قانون سازی: "ACT for ALS”
ڈین نے جس قانون کی حمایت کی وہ ہے:
"ALS ایکٹ کے لیے کریٹیکل تھراپیز تک تیز رفتار رسائی” – جسے 2021 میں امریکی کانگریس نے منظور کیا تھا۔
اس قانون کے تحت:
ریسرچ کے لیے پانچ سال کی وفاقی فنڈنگ مختص کی گئی۔
مریضوں کو کلینیکل ٹرائلز اور تجرباتی ادویات تک جلد رسائی کی اجازت دی گئی۔
قانون 2026 میں ختم ہو جائے گا، جس سے ہزاروں مریض خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
ڈین نے کیلیفورنیا کے ایوان نمائندگان کے رکن ایرک سویل سے ملاقات کی اور زور دیا کہ موجودہ ریسرچ اور تھراپی ایکسیس کو جاری رکھنے کے لیے اس قانون کی تجدید اور توسیع ناگزیر ہے۔
ایرک ڈین کا مؤقف: "یہ بیماری کسی کی بھی زندگی کو بدل سکتی ہے”
اپنی ملاقات کے دوران ڈین نے کہا:
"اکثر اوقات، مریضوں کی تشخیص میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ وہ ان کلینیکل ٹرائلز کا حصہ ہی نہیں بن پاتے، جن سے انہیں فائدہ ہو سکتا ہے۔ اسی لیے یہ قانون بہت اہم ہے — یہ سب کے لیے رسائی کو وسیع کرتا ہے۔”
ڈین نے مزید کہا کہ ALS جیسی بیماری کی نوعیت اور شدت ایسی ہے کہ "یہ آخری چیز ہے جس کی آپ کسی کو بھی تشخیص ہوتا دیکھنا چاہیں گے۔”
ذاتی جدوجہد اور خاندان سے امید کی کرن
ایرک ڈین نہ صرف مریض بلکہ والد اور شوہر بھی ہیں۔ انہوں نے کہا:
"میری گھر میں دو بیٹیاں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں انہیں کالج سے فارغ التحصیل ہوتے دیکھوں، ان کی شادی میں شریک ہوں، اور شاید ایک دن اپنے پوتے پوتیوں کو بھی دیکھوں۔”
انہوں نے مزید پُرعزم انداز میں کہا:
"میں اس سب کے لیے وہاں رہنا چاہتا ہوں۔ اس لیے میں اس پر آخری سانس تک لڑوں گا۔"
ڈین کی اہلیہ ربیکا گی ہارٹ سے ان کی شادی 2004 میں ہوئی، اور ان کی دو بیٹیاں ہیں — بلی (2010) اور جارجیا (2011)۔
"ایکٹ فار ALS” کیوں ضروری ہے؟
ALS کے مریضوں کو زیادہ وقت نہیں ملتا۔ اکثر تشخیص کے 2 سے 5 سال کے اندر موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایسی حالت میں:
ادویات تک فوری رسائی زندگی اور موت کے درمیان فرق بن سکتی ہے۔
نئے کلینیکل ٹرائلز اور ریسرچ کے بغیر، مریض محدود علاج کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے ہیں۔
موجودہ فنڈنگ کی معیاد 2026 میں ختم ہو رہی ہے، جس کے بعد ریسرچ اور تھراپی ایکسیس رکنے کا خطرہ ہے۔
ڈین اور دیگر کارکنوں کا ماننا ہے کہ اگر "ACT for ALS” کو دوبارہ فعال نہ کیا گیا تو مریضوں کی امیدوں کا چراغ بجھ جائے گا۔
تاریخی تناظر: "ایڈز وبا” سے سبق
ڈین نے ادویات تک رسائی کے حق کو ایڈز وبا کے دوران اپنائے گئے "ایکسپیڈائٹڈ ایکسیس ماڈل” سے تشبیہ دی، جہاں مریضوں کو مکمل ایف ڈی اے منظوری سے پہلے بھی زندگی بچانے والی ادویات تک رسائی دی گئی۔
اسی اصول کے تحت، وہ چاہتے ہیں کہ ALS مریضوں کو بھی جلد اور آسان رسائی دی جائے، کیونکہ ہر دن ان کی بقا کے لیے قیمتی ہے۔
حمایت کا وسیع نیٹ ورک
ڈین کی جدوجہد تنہا نہیں۔ I AM ALS جیسی تنظیمیں، مریضوں کے اہل خانہ، قانون ساز، اور محققین اس مہم میں شامل ہو چکے ہیں۔
یہ اتحاد:
ALS سے متعلق آگاہی پھیلا رہا ہے۔
حکومت سے فنڈنگ اور قانون سازی کی حمایت مانگ رہا ہے۔
اور متاثرہ افراد کے لیے نئی امید کی شمع روشن کر رہا ہے۔
نتیجہ: ایک اداکار، ایک جنگجو، ایک باپ
ایرک ڈین اب صرف ایک ہالی وڈ اسٹار نہیں رہے، بلکہ وہ لاکھوں مریضوں کی آواز بن گئے ہیں۔ ان کا عزم، ان کی وکالت، اور ان کی ذاتی کہانی صرف ایک انسان کی بیماری سے لڑنے کی داستان نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے — ایک ایسی تحریک جو انسانیت، سائنس اور قانون کو یکجا کر کے زندگی بچانے کی امید دے رہی ہے۔
"یہ جنگ میری اپنی نہیں — یہ ان سب کی ہے جو خاموشی سے تکلیف میں مبتلا ہیں۔ اور جب تک میری سانسیں باقی ہیں، میں ان کے لیے لڑتا رہوں گا۔” — ایرک ڈین



