
ملزم کا بیان بدلا، ثناء یوسف قتل کیس الجھ گیا – والدین چار ماہ سے انصاف کے منتظر
"مجھے مارا پیٹا گیا، ذہنی طور پر دباؤ میں رکھا گیا، اور مجھے کہا گیا کہ اگر میں اعتراف کر لوں گا تو سزا کم ہو جائے گی۔ میں بے گناہ ہوں۔"
اسلام آباد نمائندہ خصوصی: عدالت میں آج اس وقت سنسنی پھیل گئی جب ثناء یوسف قتل کیس میں گرفتار مرکزی ملزم عمر حیات نے عدالت میں اپنے سابقہ اعترافی بیان سے انکار کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اُس نے ثناء یوسف کو قتل نہیں کیا۔ اس اچانک انکار نے نہ صرف کیس کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے بلکہ پولیس کی تفتیش اور جلد بازی پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔
پولیس نے عمر حیات کو چار ماہ قبل اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ اُس نے ذاتی رنجش کے باعث ثناء یوسف کو بے رحمی سے قتل کیا۔ ابتدائی تفتیش کے دوران پولیس کا مؤقف تھا کہ عمر نے اعتراف جرم کیا ہے اور اُن کے پاس اس کے خلاف ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔ تاہم عدالت میں آج عمر حیات نے مؤقف اختیار کیا کہ پولیس نے اس پر دباؤ ڈال کر جھوٹا بیان دلوایا تھا اور وہ اس جرم میں ملوث نہیں ہے۔
عدالت کے اندر موجود ذرائع کے مطابق، ملزم نے کہا:
"مجھے مارا پیٹا گیا، ذہنی طور پر دباؤ میں رکھا گیا، اور مجھے کہا گیا کہ اگر میں اعتراف کر لوں گا تو سزا کم ہو جائے گی۔ میں بے گناہ ہوں۔”
عمر حیات کے بیانِ انکار کے بعد کیس ایک نئے موڑ پر آ گیا ہے۔ قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندے پولیس کی ابتدائی تفتیش کو ناقص اور غیر پیشہ ورانہ قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر پولیس کے پاس ٹھوس شواہد ہوتے تو ملزم اپنے بیان سے مکرنے کی جرأت نہ کرتا۔
"یہ ایک افسوسناک مثال ہے کہ کس طرح ہمارے تفتیشی نظام میں جلد بازی، دباؤ اور سستی سے کام لیا جاتا ہے۔ اگر پولیس نے شفاف اور قانونی طریقے سے تفتیش کی ہوتی تو آج یہ کیس اس موڑ پر نہ ہوتا۔”
ثناء یوسف کے والدین انصاف کے منتظر
ثناء یوسف کے والدین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گہرے دکھ اور مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں چار ماہ گزرنے کے باوجود اپنی بیٹی کے قاتل کو سزا ملتی نظر نہیں آ رہی۔ ثناء کی والدہ نے آنسو بھری آواز میں کہا:
"ہم روز عدالت آتے ہیں، امید کے ساتھ کہ آج کچھ انصاف ملے گا، لیکن ہر روز نئے بہانے سننے کو ملتے ہیں۔ ہماری بیٹی ہم سے چھین لی گئی، اب انصاف بھی چھن رہا ہے۔”
ثناء کے والد نے مطالبہ کیا کہ کیس کی ازسرنو تفتیش کی جائے، اور ایک آزاد تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ اصل قاتل کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔
عوامی ردِعمل
سوشل میڈیا پر بھی اس کیس نے عوامی توجہ حاصل کی ہے۔ کئی صارفین نے پولیس کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ تفتیشی افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
ٹویٹر پر ایک صارف نے لکھا:
"جب تک پولیس صرف اعداد و شمار پوری کرنے کے لیے اعتراف کرواتی رہے گی، تب تک بے گناہ جیلوں میں اور اصل مجرم آزاد رہیں گے۔”
عدالت نے عمر حیات کے بیان کے بعد کیس کی اگلی سماعت دو ہفتے بعد مقرر کی ہے اور پولیس سے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے کہ کس بنیاد پر ملزم کو گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف شواہد کی نوعیت کیا ہے۔
نتیجہ
ثناء یوسف قتل کیس اب ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ ایک طرف مظلوم خاندان ہے جو انصاف کا منتظر ہے، دوسری طرف ایک ایسا نظام ہے جو بظاہر کمزور تفتیش اور دباؤ پر مبنی اعترافات پر انحصار کرتا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا عدلیہ اور تحقیقاتی ادارے اس کیس میں سچ تک پہنچ پاتے ہیں یا نہیں۔