
ٹرمپ نے غزہ پر "کچھ خاص” کا وعدہ کیا — نیتن یاہو جنگ بندی کے 21/21‑نکاتی منصوبے پر تحفظات رکھتے ہیں
یرغمالیوں کی مکمل رہائی اور معاہدے کے نفاذ کے ابتدائی مراحل کو عملی شکل دینے کے لیے مخصوص شرائط و لائحہ عمل طے پایا گیا ہے، تاہم اس کی تصدیق اور منظوری کے لیے حماس اور اسرائیل دونوں طرفوں کی حتمی رضامندی ضروری ہے۔
واشنگٹن / تل ابیب: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر غزہ کے مسئلے کے حوالے سے زور دار امید ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ غزہ پر "کچھ خاص” آنے والا ہے، جب کہ اسرائیلی حکام نے واضح کیا ہے کہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو وائٹ ہاؤس کے مجوزہ جنگ بندی اور جنگ کے بعد کی حکمرانی کے 21 (یا بعض رپورٹس میں 20) نکاتی منصوبے پر سخت تحفظات رکھتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کی پیر کو ایک اعلیٰ سطحی ملاقات متوقع ہے، جس پر ٹرمپ نے زور دیا ہے کہ یہ ملاقات غزہ میں جنگ ختم کرنے کی راہ کھول سکتی ہے۔
نیچے دیے گئے طویل مضمون میں ہم دستیاب معلومات، فریقین کے مؤقف، اندرونی سیاسی کوریڈور میں موجود رکاوٹیں، ثالثی کی کوششیں، اور ممکنہ نتائج کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
ہائی لائٹس — مختصر خلاصہ
صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ "سب کچھ خاص کے لیے بورڈ پر ہے” اور غزہ کے لیے ایک جامع منصوبے پر فخر کا اظہار کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے باضابطہ طور پر منصوبہ قبول کرنے سے انکار یا حتمی منظوری نہیں دی؛ کہا کہ "ہم اس پر کام کر رہے ہیں — ابھی تک حتمی نہیں ہوا”۔
حماس نے کہا کہ اسے کوئی نئی تجویز موصول نہیں ہوئی، لیکن کسی ثالث کے ذریعے موصول ہونے والی تجویز کا "مثبت و ذمہ دارانہ” جائزہ لے سکتی ہے بشرطیکہ قومی حقوق برقرار رہیں۔
اسرائیلی داخلی سیاست میں انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں — اٹمار بن گِویر اور بیزلئل سمتریچ — نے کسی بھی ایسے منصوبے کی مخالفت کی ہے جو غزہ پر حماس کی مکمل شکست کے بغیر جنگ ختم کرے۔
مذاکراتی پس منظر پیچیدہ رہا ہے؛ گزشتہ مذاکرات کا ایک مرحلہ نامکمل طور پر ٹوٹا تھا اور ثالثی کوششیں (مصر، قطر اور دیگر) جاری ہیں۔
صدر ٹرمپ کا مؤقف: "کچھ خاص” اور "عظمت کا موقع”
صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا: "ہمارے پاس مشرق وسطیٰ میں عظمت کا حقیقی موقع ہے۔ سب کچھ خاص کے لیے بورڈ پر ہیں، پہلی بار۔ ہم اسے مکمل کر لیں گے!!! — صدر DJT”۔ ٹرمپ واضح طور پر ایک جامع، مرحلہ وار منصوبے کی تشہیر کر رہے ہیں جس میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، ابتدائی انخلاء کی لائنز، اور جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک فریم ورک شامل ہے۔
ٹرمپ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی مکمل رہائی اور معاہدے کے نفاذ کے ابتدائی مراحل کو عملی شکل دینے کے لیے مخصوص شرائط و لائحہ عمل طے پایا گیا ہے، تاہم اس کی تصدیق اور منظوری کے لیے حماس اور اسرائیل دونوں طرفوں کی حتمی رضامندی ضروری ہے۔
نیتن یاہو کے تحفظات: "ہم اس پر کام کر رہے ہیں”
وزیر اعظم نیتن یاہو نے سول امر تک واضح نہیں کہا کہ وہ منصوبے کو قبول کر چکے ہیں۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے کہا، "ہم اس پر کام کر رہے ہیں — ابھی تک حتمی نہیں ہوا ہے۔” اسرائیلی حکام کے مطابق نیتن یاہو کئی نکات پر تبدیلیاں چاہتے ہیں، خاص طور پر:
فلسطینی اتھارٹی (PA) کے کردار اور غزہ میں اس کی شرکت کے حوالے سے تحفظات؛
مستقبل میں کسی فلسطینی ریاست کے حوالہ جات کے امکان پر اختلاف؛
غزہ میں سیکیورٹی اور کنٹرول کے معاملے میں اسرائیل کی "حساسیت” — بعض عناصر پر وہ مکمل اتفاق نہیں کریں گے، خاص طور پر جب خاکہ پہلے سے عوامی ہو چکا ہو۔
ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے کہا ہے کہ 21 نکاتی منصوبے کے اکثر پہلو پہلے سے "قریبی تفصیل سے” نیتن یاہو کے ساتھ زیر بحث آئے، مگر وہ پورے خاکے کو اسی شکل میں قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔
حماس کا ردِ عمل: "کسی نئی تجویز کا موصول نہ ہونا”
حماس نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اسے متبادل یا نئی جنگ بندی کی کسی تازہ تجویز موصول نہیں ہوئی۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کے قومی حقوق کو برقرار رکھتے ہوئے، اپنے ثالث بھائیوں (مثلاً مصر یا قطر) کے ذریعے جو بھی تجویز آئے اسے "مثبت اور ذمہ دارانہ” انداز میں جانچنے کے لیے تیار رہے گا — تاہم یہ شرطیں واضح ہیں کہ حماس اقتدار، اس کے مقاصد اور سیاسی حیثیت کے بارے میں کیا مطالبات رکھتی ہے۔
داخلی اسرائیلی سیاست: دائیں بازو کے دباؤ کا منظرنامہ
نیتن یاہو کے دائیں بازو کے مضبوط اتحادی — اٹمار بن گِویر اور بیزلئل سمتریچ — نے واضح طور پر دھمکی دی ہے کہ اگر کوئی ایسا معاہدہ طے پایا جس میں حماس کو مکمل شکست کے بغیر جنگ کا خاتمہ شامل ہو تو وہ حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ سمتریچ نے "ناقابلِ گفت و شنید” مطالبات کی فہرست شائع کی جس میں:
جنگ کے بعد غزہ میں فلسطینی اتھارٹی (PA) کی شمولیت کی مخالفت؛
مستقبل کی ریاست کے حوالہ جات کو معاہدے سے نکالنے کی سختی؛
حماس کی قیادت کو غزہ سے نکالنے اور غزہ کے سرحدی کنٹرول میں اسرائیل یا بین الاقوامی طاقتوں کے مستقل کردار کا مطالبہ شامل تھا۔
یہ داخلہ دباؤ نیتن یاہو کے لیے ایک سیاسی توازن پیدا کرتا ہے: وہ بین الاقوامی ثالثی کے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے اپنے سخت گیر اتحادیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے، اور نہ ہی وہ ایسی منزل کو قبول کرنا چاہتے جو ان کے سیاسی مستقبل کے لیے خطرہ بنے۔
ثالثی اور علاقائی مقام: مصر، قطر، امریکا کی کوششیں
تاریخی طور پر مصر اور قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور تازہ روّیہ میں بھی وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکی ٹیم، بشمول ٹرمپ کے ایلچی، نے منصوبے کی تشہیر اور عرب ریاستوں کو بریفنگ دی ہے۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر بھی اس منصوبے پر بات چیت ہوئی۔ تاہم مذاکراتی عمل میں پچھلی بار حیرت انگیز رُکاؤٹ یا مغلوبیت رکاوٹ بن گئی تھی— اور مذاکرات کے پچھلے دور کی ناکامی واضح سبق ہے۔
ایک اہم پیغام یہ ہے کہ مذاکراتی ماحول اس بار "زیادہ سنجیدہ” ہے، مگر "اب بھی آخری لائن کو عبور کرنے” کی ضرورت باقی ہے، جیسا کہ ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے اظہار کیا۔
پچھلی ناکامی اور تازہ ہنگامہ: مذاکرات کیوں مشکل ہیں؟
پچھلے مذاکرات جولائی کے آخر میں ایک مرحلے پر ٹوٹ گئے جب غیر متوقع طور پر بعض فریقین نے مذاکراتی عمل سے دستبرداری اختیار کی۔ تب سے ثالثی کوششیں جاری ہیں مگر بعض واقعات — جیسے کسی ثالث مقام (دوحہ) میں حماس کی قیادت کو ہدف بنانے والی کارروائیاں — نے مذاکرات کو دوبارہ پیچیدہ بنادیا۔ ایسی ہنگامی کارروائیاں فریقین کے باہمی اعتماد کو کم کرتی ہیں اور ثالثی کے عمل پر اثر ڈالتی ہیں۔
ممکنہ منظرنامے — کیا آنے والا "کچھ خاص” حقیقی ہوگا؟
تجاویز اور بحثوں کی بنیاد پر چند ممکنہ راستے سامنے آتے ہیں:
مرحلہ وار جنگ بندی اور قیدیوں کی تبادلہ
اگر حماس ابتدائی شرائط مان لے تو فوری جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور ابتدائی انخلاء ممکن ہے۔ یہ ٹرمپ کے زیرِ غور مرحلہ وار منصوبے کا بنیادی جز ہے۔ترمیم شدہ معاہدہ جسے نیتن یاہو منظور کرے
نیتن یاہو کی جانب سے واضح تحفظات کے پیشِ نظر، امریکی-اسرائیلی مذاکرات کے دوران خاکہ میں ترامیم متوقع ہیں — خاص کر PA کے کردار اور سیکورٹی پیرامیٹرز میں۔سیاسی الجھن اور حکومت کا داخلی بحران
اگر انتہائی دائیں اتحادی معاہدے کے خلاف کھڑے ہوں تو نیتن یاہو کو سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے یا حکومت میں سنجیدہ اضطراب پیدا ہوسکتا ہے، جس سے معاہدے کی منظوری پیچیدہ ہوجائے گی۔مذاکرات کا دوبارہ رک جانا
اگر کوئی بڑا واقعہ یا حملہ ثالثی عمل کو متاثر کرے تو مذاکرات پٹری سے اتر سکتے ہیں۔ گزشتہ بار بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
انسانی قیمت اور علاقائی استحکام
غزہ میں جاری لڑائی کے دوران انسانی جانوں کے نقصان اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی نے ایک وسیع انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ جنگ بندی اور فوری انسانی امداد کی فراہمی بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے۔ معاہدے کی کسی بھی شکل کا انسانی پہلو — یرغمالیوں کی رہائی، طبی امداد، اور شہری تحفظ — مرکزِ توجہ ہونا چاہیے، کیونکہ طویل المدت امن تب ہی ممکن ہے جب انسانی ضروریات کو تسلیم کیا جائے۔
نتیجہ: فیصلہ کنندہ لمحہ — امید مگر احتیاط ضروری
صدر ٹرمپ کی جانب سے "کچھ خاص” کی نوید اور مساعیِ ثالثی بلاشبہ پرامید ساز ہیں، مگر اس عمل میں کئی رکاوٹیں — اسرائیلی داخلی سیاست، حماس کی سیاسی پوزیشن، اور ثالثی کی ساکھ — نمایاں ہیں۔ پیر کی ملاقات ایک اہم موقع ہے مگر نتیجہ ہمیشہ کی طرح حتمی فریقین کی رضامندی اور سیاسی جیوپولیٹیکل دباؤ پر منحصر ہوگا۔