
سووا، فجی – نمائندہ خصوصی
جنوبی بحرالکاہل کے چھوٹے سے جزیرہ نما ملک فجی میں ایچ آئی وی (HIV) کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی بنیادی وجہ نس کے ذریعے منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اور ایک خطرناک عمل ’بلو ٹوتھنگ‘ (Bluetoothing) کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کے ذریعے ایک ہی سوئی سے کئی افراد نہ صرف نشہ کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کا خون انجیکٹ کرتے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف منشیات کے اثر کو "بانٹنے” کی کوشش ہے بلکہ ایچ آئی وی جیسے خون سے منتقل ہونے والے مہلک وائرس کو بھی تیزی سے پھیلانے کا سبب بن رہا ہے۔
ایچ آئی وی کے کیسز میں تشویشناک اضافہ
2014 میں فجی میں ایچ آئی وی کے کل مریضوں کی تعداد 500 سے بھی کم تھی۔ تاہم صرف ایک دہائی کے اندر، 2024 تک یہ تعداد 5,900 تک جا پہنچی – یعنی گیارہ گنا اضافہ۔
گزشتہ سال 2024 میں ہی 1,583 نئے کیسز رپورٹ ہوئے، جو فجی کی معمول کی پانچ سالہ اوسط سے 13 گنا زیادہ تھے۔
ان میں:
41 مریضوں کی عمر 15 سال یا اس سے کم تھی؛
2023 میں یہ تعداد صرف 11 تھی؛
نوجوانوں میں کیسز کی شرح غیر معمولی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
فجی کے وزیر صحت نے اسے قومی صحت کا بحران قرار دیا ہے، جبکہ معاون وزیر صحت پینیونی روونوا نے خبردار کیا ہے کہ 2025 کے اختتام تک مزید 3,000 کیسز کا اندیشہ ہے۔
’بلو ٹوتھنگ‘: ایک مہلک اور ناقابل یقین عمل
ایچ آئی وی کے تیز پھیلاؤ کی بڑی وجہ ایک نیا اور خطرناک رجحان ہے، جسے بلو ٹوتھنگ (Bluetoothing) کہا جاتا ہے۔ اس میں:
کوئی ایک شخص نشہ آور مادہ (منشیات) انجیکٹ کرتا ہے؛
وہی شخص اپنا خون سرنج میں واپس نکالتا ہے؛
وہی خون دوسرے افراد میں انجیکٹ کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی نشہ محسوس کریں؛
یہ عمل کئی افراد تک دہرایا جاتا ہے — سوئی اور خون سب کچھ مشترکہ ہوتا ہے۔
ایسا ہی ایک منظر این جی او ڈرگ فری فجی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کالیسی وولاٹابو نے خود فجی کے دارالحکومت سووا میں دیکھا:
"میں نے ایک نوجوان عورت کو دیکھا جو خون نکال رہی تھی اور اس کے پیچھے قطار میں دیگر لڑکیاں تھیں، جو اسی خون سے نشہ کرنے کے لیے کھڑی تھیں۔ سوئی خون سے لت پت تھی – اور وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا۔”
نوجوان نسل خطرے میں: ’وہ صرف سوئیاں نہیں بانٹ رہے، وہ خون بانٹ رہے ہیں‘
فجی میں ایچ آئی وی سے متاثر ہونے والا سب سے کم عمر بچہ صرف 10 سال کا ہے۔
سیسنیلی نائٹالا، جو فجی میں جنسی کارکنوں اور منشیات استعمال کرنے والوں کی حمایت کے لیے سروائیور ایڈووکیسی نیٹ ورک کی قیادت کر رہی ہیں، کہتی ہیں:
"یہ وہ بچہ ہے جو کوویڈ کے دوران سڑک پر دیگر بچوں کے ساتھ سوئیاں بانٹ رہا تھا۔ وہ ان ہزاروں نوجوانوں میں سے ہے جنہوں نے سوئی بانٹ کر اپنی زندگی خطرے میں ڈال دی۔”
سہولیات کی کمی، سماجی رکاوٹیں، حکومتی چیلنجز
سرنج کی دستیابی میں رکاوٹیں:
فارمیسیز سرنجیں صرف نسخے پر دیتی ہیں؛
سوئی سرنج پروگرام (Needle-Syringe Exchange Programs) موجود نہیں یا ناکافی ہیں؛
انجیکشن آلات تک رسائی محدود ہونے سے مشترکہ سوئیوں کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
سماجی قدامت پسندی:
فجی ایک انتہائی مذہبی اور قدامت پسند معاشرہ ہے؛
ایچ آئی وی، منشیات اور جنسی صحت جیسے موضوعات بدنامی اور شرمندگی کا باعث بنے ہوئے ہیں؛
یہی وجہ ہے کہ لوگ علامات کے باوجود ٹیسٹ کروانے سے گریز کرتے ہیں۔
NGO کی ذمہ داری بڑھ گئی:
سرنجیں اور کنڈوم بانٹنے جیسے اقدامات نجی تنظیموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں؛
حکومت کی طرف سے مؤثر مداخلت کی اب تک کمی ہے۔
ماہرین کا مؤقف: اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ جو کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں وہ صرف "برفانی تودے کی نوک” (tip of the iceberg) ہیں۔ اصل متاثرہ افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ:
دیہی علاقوں میں سہولیات نہیں؛
ٹیسٹنگ اور آگاہی کی کمی ہے؛
لوگ بدنامی کے خوف سے خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
عالمی تناظر: جنوبی افریقہ اور لیسوتھو میں بھی یہی صورتحال
بلو ٹوتھنگ جیسا عمل صرف فجی تک محدود نہیں رہا۔ جنوبی افریقہ اور لیسوتھو جیسے ممالک، جہاں پہلے ہی دنیا میں ایچ آئی وی کی شرح بلند ترین ہے، وہاں بھی اسی طرز کی رپورٹس آ رہی ہیں۔
حل کی جانب پیش رفت: ایک طویل راستہ باقی ہے
2024 کے وسط میں، فجی کی وزارت صحت نے آخرکار بلو ٹوتھنگ کو تسلیم کیا اور اسے روکنے کے لیے پالیسی پر غور شروع کیا۔ تاہم:
عوامی آگاہی مہمات محدود ہیں؛
پالیسی سازی میں سست روی ہے؛
مذہبی حلقوں کی مزاحمت بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
محترمہ وولاٹابو کہتی ہیں:
"ہم ایچ آئی وی کے خلاف جنگ میں پیچھے رہ گئے ہیں، اور اگر ہم نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو آنے والی نسلیں اس کے نتائج بھگتیں گی۔”
اختتامی کلمات: ایک ہنگامی ردعمل کی ضرورت
فجی میں ایچ آئی وی کی موجودہ صورتحال صرف ایک ملک کا بحران نہیں بلکہ ایک عالمی صحت کا انتباہ ہے۔ جب منشیات، غربت، بدنامی، لاعلمی اور ناکافی پالیسی ایک ساتھ آتی ہیں، تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔
‘وہ صرف سوئیاں نہیں بانٹ رہے، وہ خون بانٹ رہے ہیں’ — یہ جملہ فجی کی اس المیے کی سنگینی کا آئینہ دار ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا پورے جنوبی بحرالکاہل کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔