کالمزسید عاطف ندیم

پاکستان کا تعلیمی نظام: طبقاتی تقسیم……سید عاطف ندیم

تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں 25 ملین سے زائد بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔

پاکستان کا تعلیمی نظام ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف اشرافیہ کے لیے مخصوص اعلیٰ معیار کے نجی اسکول موجود ہیں، تو دوسری جانب ناکافی سہولیات، کم بجٹ اور ناقص معیار تعلیم کے حامل سرکاری اسکول۔ یہ تقسیم نہ صرف تعلیمی برابری کے اصولوں سے انحراف ہے بلکہ ایک ایسا طبقاتی معاشرہ تشکیل دے چکی ہے جو مستقبل میں مزید تقسیم، محرومی اور ناہمواریوں کا سبب بن سکتا ہے۔


اعداد و شمار: نجی اور سرکاری اسکولوں کی موجودہ صورتحال

  • ملک بھر میں اس وقت 207,000 رجسٹرڈ نجی اسکول موجود ہیں، جہاں 1.55 ملین اساتذہ تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، اور تقریباً 27 ملین طلبہ زیر تعلیم ہیں۔

  • اس کے مقابلے میں 131,000 سرکاری اسکول ہیں، جن میں تقریباً 21 سے 22 ملین طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

  • تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں 25 ملین سے زائد بچے اب بھی اسکول سے باہر ہیں۔

ماہرین کے مطابق، بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے، ملک کو کم از کم 200,000 نئے سرکاری اسکولوں کی ضرورت ہے تاکہ تعلیمی خلا کو پُر کیا جا سکے، لیکن حکومت کی ترجیحات میں تعلیم شامل نہ ہونے کے باعث یہ خلاء اب تک برقرار ہے۔


تعلیم: نجی شعبے کی نرغے میں

شعبہ تعلیم کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حکومت نے عملاً تعلیم کو نجی شعبے کے سپرد کر دیا ہے۔ نتیجتاً:

  • نجی اسکول اپنی من مانی فیسیں مقرر کرتے ہیں جو عوام کی ایک بڑی تعداد کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔

  • کچھ اسکول ماہانہ 10 سے 50 ہزار روپے یا اس سے زائد فیس لیتے ہیں، جب کہ ملک کی بڑی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض درمیانے درجے کے نجی اسکول ایلیٹ اسکولوں کے مقابلے میں بہتر تنخواہیں اور نتائج فراہم کر رہے ہیں۔


اساتذہ کی اجرت: ایک اور سنگین مسئلہ

ارم ظفر، جو ایک نجی اسکول میں پڑھاتی ہیں، کہتی ہیں کہ:

"میں ایک معروف ایلیٹ اسکول میں 20,000 روپے ماہانہ فیس لینے والے بچوں کو پڑھاتی تھی، لیکن میری تنخواہ صرف 30,000 روپے تھی۔ اب میں ایک متوسط درجے کے اسکول میں پڑھا رہی ہوں جہاں تنخواہ 50,000 ہے، اور معیارِ تعلیم بھی بہتر ہے۔”

ان کے مطابق، نجی اسکول دوہری ناانصافی کرتے ہیں:

  1. عوام سے غیرمعمولی فیس وصول کرتے ہیں؛

  2. اساتذہ کو کم تنخواہیں دے کر اپنے منافع کو بڑھاتے ہیں۔


قوانین موجود مگر عملدرآمد ندارد

پاکستان میں تعلیمی اداروں کے لیے قوانین موجود تو ہیں، مگر:

  • نگرانی کا نظام ناقص ہے؛

  • سرکاری ادارے نفاذ میں ناکام ہیں؛

  • معیارِ تعلیم، اساتذہ کی تربیت، نصاب اور سہولیات کی نگرانی کے موثر نظام کی عدم موجودگی نے مجموعی تعلیمی ماحول کو متاثر کیا ہے۔


اشرافیہ کی تعلیم، عوام کے لیے ایک خواب

پاکستان کا تعلیمی نظام طبقاتی تقسیم کی واضح تصویر بن چکا ہے:

  • ایلیٹ طبقہ کیمبرج اور دیگر غیر ملکی نظامِ تعلیم سے فائدہ اٹھا کر ہر سطح پر برتری حاصل کرتا ہے؛

  • متوسط و غریب طبقہ سرکاری اسکولوں یا کم معیار کے نجی اداروں تک محدود ہے۔

ڈاکٹر عطا الرحمٰن، سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، کہتے ہیں:

"اگر فیصلہ ساز اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہوں، تو نظام خود بہتر ہو جائے گا۔ لیکن جب وہ خود نجی اداروں میں تعلیم دلواتے ہیں تو سرکاری نظام کو اہمیت نہیں دی جاتی۔”


نجی شعبہ کا مؤقف

آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا اس الزام سے اتفاق نہیں کرتے کہ نجی ادارے نظام کو خراب کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے:

  • "85% نجی اسکول ایسے ہیں جہاں فیس 3,000 روپے سے کم ہے؛

  • صرف 2% نجی اسکول ایسے ہیں جو 10,000 سے 50,000 روپے فیس لیتے ہیں؛

  • حکومت خود تعلیم پر توجہ نہیں دے رہی، اسی لیے نجی شعبہ پھل پھول رہا ہے۔”

انہوں نے تجویز دی کہ:

"اگر حکومت تعلیم پر خرچ نہیں کر سکتی، تو نجی اسکولوں کو پابند کرے کہ وہ غریب بچوں کو داخلہ دیں، جن کا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے۔ حکومت سرکاری اسکولوں میں فی طالبعلم 9,160 روپے ماہانہ خرچ کر رہی ہے، اسی بجٹ سے نجی اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دلوائی جا سکتی ہے۔”


حل کیا ہو سکتا ہے؟

یکساں قومی تعلیمی نظام:

ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں ایک مشترکہ تعلیمی نظام ہونا چاہیے تاکہ طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ممکن ہو۔

قانون سازی اور نفاذ:

موجودہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے، اور نجی اداروں کی مالی شفافیت اور معیارِ تعلیم پر نگاہ رکھی جائے۔

سرکاری اسکولوں میں اصلاحات:

  • اساتذہ کی تربیت؛

  • اسکول کی عمارتوں کی بہتری؛

  • ٹیکنالوجی کی فراہمی؛

  • مانیٹرنگ سسٹم کی بہتری۔

پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ کی شفافیت:

حکومت نے کئی سرکاری اسکول نجی شراکت داری میں دے رکھے ہیں، ان اداروں کے نتائج، کارکردگی اور مالی امور کی سخت نگرانی ضروری ہے۔

اگر پاکستان کو واقعی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو تعلیم پر سرمایہ کاری کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ ورنہ ملک ایک ایسی "نان-نالج اکانومی” کی طرف بڑھ رہا ہے جو نہ صرف معیشت بلکہ قومی وحدت، سماجی انصاف اور جمہوری اقدار کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔


آپ کی رائے اہم ہے!
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ تمام وزرا اور بیوروکریٹس کو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروانے کا قانون ہونا چاہیے؟
اپنی رائے کمنٹس میں ضرور شیئر کریں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button