مشرق وسطیٰاہم خبریں

اگر ٹرمپ کا جنگ بندی منصوبہ آگے بڑھتا ہے، تو اقوامِ متحدہ کی امدادی ٹیمیں "فوری طور پر متحرک” ہونے کے لیے تیار — ہزاروں میٹرک ٹن امداد اسٹینڈ بائی پر

جیسے ہی ہمیں گرین لائٹ ملتی ہے، ہم میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔اقوامِ متحدہ

نیویارک / غزہ (خصوصی رپورٹ) — اگر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ حتمی منظوری حاصل کر لیتا ہے، تو اقوامِ متحدہ کی امدادی ٹیمیں غزہ میں فوری کارروائی کے لیے تیار ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اعلیٰ حکام کے مطابق، ہزاروں میٹرک ٹن امدادی سامان پہلے ہی ترسیل کے لیے تیار ہے، جس کا مقصد جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں انسانی بحران کو کم کرنا ہے۔


"ہم جانے کے لیے تیار ہیں” — اقوامِ متحدہ

پیر کے روز نیویارک میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا:

"جیسے ہی ہمیں گرین لائٹ ملتی ہے، ہم میدان میں اترنے کے لیے تیار ہیں۔ ہزاروں میٹرک ٹن امدادی سامان پائپ لائن میں داخل ہونے کے لیے تیار ہے، جن میں خوراک، ادویات، صاف پانی اور دیگر بنیادی ضروریات شامل ہیں۔”

ڈوجارک نے یہ بھی واضح کیا کہ اقوامِ متحدہ کی ٹیمیں سیکیورٹی کلیئرنس کے منتظر ہیں تاکہ وہ سرحد پار کر کے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد بحال کر سکیں۔


اقوامِ متحدہ کا مالیاتی اقدام: $9 ملین ہنگامی فنڈ جاری

اقوامِ متحدہ کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے غزہ میں ہنگامی ضروریات کی تکمیل کے لیے 9 ملین ڈالر جاری کر دیے ہیں۔ یہ فنڈز خاص طور پر ان سہولیات کے لیے مختص کیے گئے ہیں جن کا جنگ کے دوران نظام درہم برہم ہو چکا ہے:

  • ہسپتال اور کلینک

  • پانی کی ترسیل اور صفائی کے نظام

  • بیکریاں اور فوڈ چینز

  • ایندھن اور بجلی کی فراہمی

ٹام فلیچر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X (سابقہ ٹویٹر) پر ایک بیان میں کہا:

"اگر جنگ بندی نافذ ہوتی ہے اور ہمیں وسیع پیمانے پر رسائی کی اجازت دی جاتی ہے، تو ہم فوری طور پر زیادہ سے زیادہ متاثرین تک پہنچنے کے لیے تیار ہیں۔”


امدادی اشیاء کی نوعیت اور مقدار

اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے OCHA کے مطابق، جو امدادی سامان اسٹینڈ بائی پر موجود ہے، اس میں شامل ہے:

  • خوراک کے 6,000 میٹرک ٹن پیکٹ (چاول، آٹا، دالیں، چینی)

  • 2,000 میٹرک ٹن ادویات اور طبی سازوسامان

  • صاف پانی اور واٹر فلٹریشن یونٹس

  • ہنگامی پناہ گاہیں، ترپال، اور کٹلری

  • سولر جنریٹرز اور موبائل پاور یونٹس

یہ تمام سامان سرحدی علاقوں — رفح، الاریش، اور کرم ابو سالم کراسنگ — کے قریب اسٹور کر لیا گیا ہے، جہاں سے جنگ بندی کی صورت میں فوری ترسیل ممکن ہے۔


ٹرمپ کا مجوزہ جنگ بندی منصوبہ — ایک نئی پیش رفت

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفارتی ذرائع کے ذریعے پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ اب عالمی سطح پر غور و خوض کا مرکز بن چکا ہے۔ منصوبے کے تحت:

  • کم از کم 30 روزہ انسانی جنگ بندی

  • متاثرہ علاقوں تک مکمل امدادی رسائی

  • قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت

  • غزہ میں بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے عالمی فنڈ

ابھی تک اس منصوبے کو نہ تو اسرائیلی حکومت نے مکمل طور پر قبول کیا ہے، اور نہ ہی فلسطینی فریقین کی طرف سے مکمل حمایت ملی ہے۔ تاہم، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور او آئی سی کی جانب سے اسے مثبت پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔


انسانی بحران کی شدت — فوری جنگ بندی ناگزیر

غزہ میں جاری کشیدگی نے 20 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق:

  • 70% ہسپتال یا تو مکمل تباہ ہو چکے ہیں یا ناکارہ

  • صاف پانی کی قلت 90% آبادی کو درپیش ہے

  • روزانہ کی بنیاد پر درجنوں ہلاکتیں

  • بچوں میں غذائی قلت کی شرح خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے

یونیسف، ورلڈ فوڈ پروگرام، اور ڈبلیو ایچ او نے بھی اقوامِ متحدہ کے منصوبے کی حمایت کی ہے اور رسد کے عمل میں شرکت کا عندیہ دیا ہے۔


عالمی برادری کی ذمہ داری

اقوامِ متحدہ کے مطابق، اگر جنگ بندی اور امدادی رسائی کو سیاسی اختلافات کی بھینٹ چڑھایا گیا، تو "غزہ کا انسانی بحران ناقابلِ تصور سانحہ بن جائے گا”۔

ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے زور دیا:

"یہ وقت سیاست کا نہیں، انسانیت کا ہے۔ ہمیں ہر قیمت پر امداد کی رسائی یقینی بنانی ہے۔”


جنگ بندی کا فیصلہ لمحہ فکریہ

ٹرمپ کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی منصوبہ چاہے متنازعہ ہو، مگر اس نے کم از کم ایک امید کی کرن ضرور پیدا کی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر امدادی ادارے مکمل طور پر متحرک ہیں — اب فیصلہ سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہے کہ آیا وہ انسانی جانوں کو ترجیح دیں گے یا مفادات کو۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button