
صیہونی قابض افواج کی فلسطینی دیہات پر نئی جارحیت: زیتون کی کٹائی پر پابندی، دھمکیاں، دکانوں کی بندش اور جبری واپسی
زیتون کی فصل ان کی زمین اور شناخت کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، رواں ہفتے جب کسان اپنے باغات کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں صیہونی افواج نے بستی کی چوکی کے قریب پہنچنے سے روک دیا۔
رام اللہ (خصوصی رپورٹ) — فلسطینی سرزمین پر صیہونی قبضے اور جبر کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیلی قابض افواج نے ایک نئی کارروائی کے دوران رام اللہ کے مغرب میں واقع تین دیہات — کفر نیمہ، دیر ابزی اور دیر عمار — کے مکینوں کو ان کی روزمرہ زندگی سے جبراً محروم کر دیا، انہیں دھمکیاں دیں، ان کی دکانیں بند کروائیں اور زبردستی انہیں گھروں میں محصور رہنے پر مجبور کر دیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مقامی فلسطینی کسانوں نے اپنے زیتون کے باغات کی کٹائی کے لیے اس زمین تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جو اسرائیلی قابض افواج کی نگرانی میں ایک غیرقانونی صیہونی بستی کے اردگرد چوکی (Outpost) میں تبدیل کی جا چکی ہے۔
فلسطینی کسانوں کو زیتون کی کٹائی سے روکنا
فلسطینیوں کے لیے زیتون کا موسم نہ صرف زرعی لحاظ سے اہم ہے بلکہ یہ ثقافتی، خاندانی اور معاشی لحاظ سے بھی مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ زیتون کی فصل ان کی زمین اور شناخت کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔ تاہم، رواں ہفتے جب کسان اپنے باغات کی طرف روانہ ہوئے تو انہیں صیہونی افواج نے بستی کی چوکی کے قریب پہنچنے سے روک دیا۔
عینی شاہدین کے مطابق، درجنوں قابض فوجی علاقے میں تعینات تھے جنہوں نے نہ صرف کسانوں کو باغات کی جانب جانے سے روکا بلکہ انہیں دھمکیاں دیں کہ اگر وہ واپس نہ گئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
دکانیں بند، گاؤں بند، عوام کو گھروں میں محصور کر دیا گیا
قابض افواج نے زیتون کی کٹائی کو روکنے کے بعد مزید سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے کفر نیمہ، دیر ابزی اور دیر عمار کے مرکزی راستوں کو بند کر دیا، بازار اور دکانیں زبردستی بند کروائیں اور مقامی لوگوں کو حکم دیا کہ وہ "فوری طور پر” اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق، فوجیوں نے لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اعلانات کیے کہ "جو کوئی بھی حکم کی خلاف ورزی کرے گا، اسے گرفتار کر لیا جائے گا یا طاقت کے ذریعے ہٹایا جائے گا”۔ اس اعلان کے بعد مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، خواتین اور بچے گھروں میں دبک گئے جبکہ مرد زبردستی گھروں میں محصور کر دیے گئے۔
صیہونی بستی کی چوکی: فلسطینی زمین پر غیرقانونی قبضے کا تسلسل
یہ تازہ کارروائی ایک وسیع تر اسرائیلی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتی ہے جس کے ذریعے فلسطینیوں کی زمینوں پر صیہونی بستیوں کی توسیع جاری ہے۔ "چوکی” دراصل ان غیرقانونی بستیوں کی وہ ابتدائی شکل ہوتی ہے جہاں چند صیہونی آبادکار قابض افواج کے تعاون سے آ کر ڈیرے ڈال لیتے ہیں، پھر آہستہ آہستہ وہی جگہ ایک مکمل بستی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
کفر نیمہ اور اس کے اردگرد کے علاقے ماضی میں بھی اسی نوعیت کی توسیع پسندی اور آبادکاری کا شکار رہے ہیں۔ مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بستی نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ان کے لیے زندگی کو جہنم بنانے کا ذریعہ بن چکی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی شدید تشویش
فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں نے اس اقدام کو ایک سنگین انسانی، قانونی اور اخلاقی بحران قرار دیا ہے۔ فلسطینی سول سوسائٹی گروپوں کا کہنا ہے کہ:
"یہ کوئی سیکورٹی آپریشن نہیں، بلکہ ایک منظم پالیسی کے تحت فلسطینیوں کو زمین، معیشت اور شناخت سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔”
ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیں بارہا اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ ان غیرقانونی بستیوں کو ختم کرے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق واپس دے، تاہم اسرائیلی ریاست ان مطالبات کو نظر انداز کرتی رہی ہے۔
مقامی مزاحمت اور مظاہرے
حالیہ کارروائی کے بعد ان دیہاتوں کے نوجوانوں نے احتجاج کیا، جس پر قابض افواج نے آنسو گیس کے شیل اور ربر کی گولیاں برسائیں۔ کئی افراد زخمی ہوئے، کچھ بچوں اور خواتین کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ انہیں اپنی زمینوں تک رسائی دی جائے اور فوجی محاصرے کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔
اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی خاموشی؟
فلسطینی قیادت نے ایک بار پھر اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ فلسطینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا:
"قابض اسرائیلی افواج کا یہ عمل بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی ہے، جو فلسطینی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو روند رہا ہے۔ اگر عالمی برادری اب بھی خاموش رہی تو یہ ناانصافی ایک عالمی سانحے میں تبدیل ہو جائے گی۔”
زیتون کے درخت: فلسطینی ثقافت کی جڑیں، جنہیں کاٹا جا رہا ہے
زیتون کے درخت فلسطینیوں کے لیے محض ایک زرعی فصل نہیں بلکہ تاریخی ورثہ اور مزاحمت کی علامت ہیں۔ صیہونی فورسز کی جانب سے بار بار زیتون کے درختوں کو کاٹنا، جڑ سے اکھاڑنا، یا زیتون کے موسم میں رسائی روکنا ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کی زمین سے وابستگی ختم کرنا ہے۔
زمین پر قبضہ، حق پر قدغن
کفر نیمہ، دیر ابزی، اور دیر عمار کے حالیہ واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام کو نہ صرف ان کی زمینوں، روزگار، معیشت اور مذہب سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی ثقافتی زندگی، زرعی روایت، اور انسانی شناخت کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
جب ایک کسان کو زیتون کاٹنے سے روکا جائے، جب دکان دار کو کاروبار سے روک کر گھر بھگا دیا جائے، اور جب بچوں کو آنسو گیس کے دھوئیں میں سانس لینا پڑے — تو یہ صرف ظلم نہیں، نسل کشی کے ابتدائی مراحل ہیں۔



