کاروباراہم خبریں

ٹرمپ کی جانب سے نئی تجارتی پابندیاں: امریکہ چین تجارتی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل

"چین عالمی معیشت کو یرغمال بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اور نایاب زمینی معدنیات پر کنٹرول کے ذریعے دنیا کی صنعتی و ٹیکنالوجی کی ترقی کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

واشنگٹن/بیجنگ (رائٹرز + ایجنسیز):

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے خلاف نئی معاشی پابندیوں اور تجارتی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ چین کی برآمدات پر 100 فیصد تک کے نئے محصولات عائد کیے جائیں گے اور "کسی بھی اور تمام اہم سافٹ ویئر” پر برآمدی کنٹرولز نافذ کیے جائیں گے۔ یہ اقدامات چین کی جانب سے نایاب زمینی معدنیات (Rare Earth Elements) کی برآمدات پر حالیہ پابندیوں کے ردعمل میں کیے جا رہے ہیں۔

"یکم نومبر سے مکمل ٹیرف نافذ کیا جائے گا”

صدر ٹرمپ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا:

"اس حقیقت کی بنیاد پر کہ چین نے یہ بے مثال پوزیشن اختیار کی ہے… یکم نومبر 2025 سے امریکہ چین پر 100 فیصد ٹیرف عائد کرے گا۔ اسی تاریخ سے ہم کسی بھی اور تمام اہم سافٹ ویئر پر ایکسپورٹ کنٹرول نافذ کر دیں گے۔”

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ چین نے صرف امریکہ کو نشانہ بنایا ہے، اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا، جنہیں اسی طرح کی پابندیوں کا سامنا ہے۔

صدر شی سے ملاقات منسوخ کرنے کی دھمکی

ان پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ہی، ٹرمپ نے آئندہ ہفتوں میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ہونے والی ممکنہ ملاقات منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اگرچہ بیجنگ نے اس ملاقات کی کوئی باضابطہ تصدیق نہیں کی، تاہم امریکی صدر کے اس بیان نے عالمی سطح پر پائے جانے والے سفارتی ماحول کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے الزام لگایا کہ:

"چین عالمی معیشت کو یرغمال بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اور نایاب زمینی معدنیات پر کنٹرول کے ذریعے دنیا کی صنعتی و ٹیکنالوجی کی ترقی کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔”

چین کی برآمدی پابندیاں اور عالمی اثرات

چین نے حالیہ دنوں میں نایاب زمینی عناصر کی برآمد پر نمایاں پابندیاں عائد کی ہیں۔ یہ عناصر ٹیکنالوجی، دفاع، اور توانائی کے شعبوں میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، جن میں:

  • الیکٹرک گاڑیاں

  • ہوائی جہاز کے انجن

  • فوجی ریڈار سسٹمز

  • موبائل فونز اور کمپیوٹر چپس شامل ہیں۔

چین دنیا کی 90 فیصد سے زیادہ پروسیس شدہ نایاب زمین اور میگنےٹ کی سپلائی کرتا ہے، اور ان پابندیوں کے باعث عالمی مارکیٹ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

مالیاتی منڈیوں میں بھونچال

ٹرمپ کی جانب سے اچانک اور سخت موقف اپنانے کے بعد عالمی مالیاتی منڈیوں میں شدید مندی دیکھنے میں آئی۔ S&P 500 انڈیکس میں 2 فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی، جو اپریل کے بعد سے ایک دن میں سب سے بڑی گراوٹ تھی۔

سرمایہ کاروں نے:

  • سونے اور امریکی خزانے (Treasury Securities) کی طرف رجوع کیا۔

  • امریکی ڈالر کی قدر میں کمی دیکھی گئی۔

  • عالمی کرنسی مارکیٹوں میں عدم استحکام پیدا ہوا۔

چین کی پوزیشن اور ردعمل

بیجنگ نے اب تک ٹرمپ کے حالیہ بیانات پر کوئی باضابطہ ردعمل نہیں دیا ہے، لیکن ماضی میں چین متعدد بار امریکہ کی "یکطرفہ اقتصادی پابندیوں” کو مسترد کر چکا ہے۔ چینی وزارت خارجہ اور تجارتی حکام نے امریکی اقدامات کو عالمی تجارتی نظام کے خلاف قرار دیا ہے۔

ماہرین کی رائے: "تجارتی جنگ دوبارہ شروع”

کریگ سنگلٹن، فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے چین امور کے ماہر، نے کہا:

"ٹرمپ کی تازہ پوسٹ بظاہر اس ٹیرف جنگ بندی کے خاتمے کی طرف اشارہ ہے، جس پر سال کے آغاز میں بڑی محنت سے سفارتی سطح پر اتفاق ہوا تھا۔”

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ چین کے اقدامات کو اقتصادی بلیک میلنگ کے مترادف سمجھتا ہے، جبکہ چین نے غالباً اپنے ہاتھ زیادہ کھول دیے ہیں اور اب اس کا اثر عالمی سطح پر دکھائی دے رہا ہے۔

تجارتی کشیدگی: عالمی معیشت پر اثرات

امریکہ اور چین نہ صرف دنیا کی دو بڑی معیشتیں ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات عالمی سپلائی چین کا اہم حصہ ہیں۔ ان تعلقات میں تناؤ کا براہِ راست اثر:

  • بین الاقوامی سرمایہ کاری

  • عالمی برآمدات و درآمدات

  • کرنسی کی قدر

  • مہنگائی اور کساد بازاری پر پڑتا ہے۔

سیاسی و سفارتی موڑ

ٹرمپ کا یہ موقف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ میں صدارتی انتخابی مہم بھی زوروں پر ہے۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات سیاسی مقاصد کے لیے کیے جا رہے ہیں تاکہ "امریکہ فرسٹ” پالیسی کو ایک بار پھر عوامی حمایت حاصل ہو سکے۔ دوسری جانب، چین کے ساتھ تعلقات میں تناؤ امریکہ کی عالمی قیادت کی حیثیت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔


نتیجہ: تجارتی جنگ کا ایک نیا، خطرناک مرحلہ

صدر ٹرمپ کے تازہ اقدامات اور سخت گیر بیانات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ امریکہ چین تجارتی کشیدگی محض عارضی نہیں بلکہ ایک طویل المدتی محاذ آرائی کی صورت اختیار کر رہی ہے۔ اگر دونوں ممالک مذاکرات کی میز پر واپس نہ آئے تو نہ صرف عالمی منڈیوں میں افراتفری کا خدشہ ہے بلکہ عالمی کساد بازاری کے امکانات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔

عالمی برادری اور تجارتی ماہرین کی نظریں اب دونوں ممالک کی آئندہ حکمت عملی پر مرکوز ہیں، اور سوال یہی ہے:

کیا دنیا ایک اور تجارتی جنگ کی متحمل ہو سکتی ہے؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button