
فاختہ امن کا گیت گا سکتی ہے ؟……ناصف اعوان
اگر ہم اپنے ملک کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح طور سے دکھائی دے جاتا ہے کہ معیشت کی زبوں حالی سے مسائل در مسائل پیدا ہو رہے ہیں
اس وقت پورا سماج مختلف النوع پیچیدگیوں کی لپیٹ میں ہے گھریلو معاملات ہوں یا دیگر روز بروز ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس سے اس کی مجموعی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نوے فیصد مسائل معاشی تنگ دستی سے جنم لیتے ہیں۔ اگر ملک کی معیشت مضبوط ہو تو اس کے عوام بھی خوشحال ہوتے ہیں اور ان میں برداشت تحمل اور بردباری بھی بہت ہوتی ہے ۔ ان کے ذہنوں میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ زیادہ تر صحت مند ہوتے ہیں دوسروں کے بارے ان کی سوچ منفی نہیں ہوتی بلکہ مثبت ہوتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ جہاں لوگ بہتر زندگی بسر کرتے ہیں ان میں ناخوشگوار سوچیں نہیں ابھرتیں ایسا ہوتا ہے مگر ان کی تعداد انتہائی کم ہو تی ہے کیونکہ وہاں کا قانون سخت ہوتا ہے وہ اپنی عمل داری میں کوئی رعایت نہیں برتتا لہذا عام مسائل ہوں یا جرائم ان کی شرح معمولی ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں قانون اور معیشت کمزور ہوتے ہیں وہاں جھگڑے عداوتیں چھینا جھپٹی وغیرہ بھی عام ہوتے ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کی صورت حال کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح طور سے دکھائی دے جاتا ہے کہ معیشت کی زبوں حالی سے مسائل در مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔غربت آکاس بیل کی مانند پھیلتی چلی جا رہی ہے لہذا ہر کوئی بے زار اور اکتایا ہوا نظر آتا ہے ۔ نوجوان طبقہ جسے ملک کو سنبھالنا ہوتا ہے اور اپنی قابلیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے ترقی کی منازل تک لے جانا ہوتا ہے اپنے فرض سے قدرے غافل ہے کیونکہ اسے ہمارے ارباب اختیار نےکبھی بھی اہمیت نہیں دی انہیں یہ یقین ہی نہیں دلایا گیا کہ وہ مستقبل کا معمار ہے۔ تقریروں گفتگوؤں اور بھاشنوں سے تو وہ بہت کچھ کہتے ہیں مگر عملاً اس کے بر عکس ہوتے ہیں اسی لئے ہمارے نوجوان مایوس ہو چکے ہیں ۔وہ بد ظن ہو کر ان راستوں پر چل نکلے ہیں جو انگاروں سے بھر ے پڑے ہیں مگر وہ ان پر چلنا اپنی مجبوری سمجھتے ہیں ۔ یہ جو جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے دن دیہاڑے ڈکیتیاں چوری کی وار راتیں اور دھوکا دہی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔ یہ اس وقت ختم ہو سکتے ہیں جب صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا ۔ صنعتی زون قائم کرکے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کر دیا جائے گا مگر افسوس کہ اس طرف ہماری حکومتوں نے زیادہ توجہ نہیں دی جبکہ انہیں چاہیے تھا کہ وہ آبادی کے تناسب سے روزگار کے ذرائع تخلیق کرتے لیکن آج تک ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ گلی محلے کی سطح پر جرائم ہونے لگے ہیں ۔موٹر سائیکلوں سے لے کر کاروں تک کی وارداتیں تیزی سے ہو رہی ہیں ۔ جو نوجوان ایسا نہیں کر سکتے وہ بیرون کا رخ کر رہے ہیں ڈنکی لگا کر یورپ کے ملکوں میں داخل ہو رہے ہیں ان کے ساتھ وہاں جو سلوک ہوتا ہے وہ بڑا بھیانک ہوتا ہے راستوں میں انہیں جو صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں وہ بڑی خوفناک ہوتی ہیں کچھ بے چارے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔اس کے باوجود باہر جانے کا رجحان بدستور جاری ہے کیونکہ ہمارے ہاں روزگار کے ذرائع سکڑتے جارہے ہیں بلکہ بتایا گیا ہے کہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک چھوڑ چکی ہیں کچھ چھوڑنے کے لئے پر تول رہی ہیں یوں نئے مسائل پیدا ہونے کے ساتھ گمبھیر بھی ہوتے جا رہے ہیں جنہیں حل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے مگر ہمارے زمہ داران لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں لہذا لوگ اپنے طور سے جینے کی راہ تلاش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن میں مثبت و منفی پہلو نمایاں ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھے گا کیونکہ جوں جوں آبادی بڑھے گی مسائل بھی بڑھیں گے۔ ہمارے کرتا دھرتاؤں نے ان پر قابو پانے کے لئے یہ تجویز کیا ہے کہ ڈنڈے کا استعمال کیا جائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔جب تک معاشی حالت بہتر نہیں ہوتی وافر دولت ملکی خزانے میں نہیں آتی۔ سماج کی حالت ٹھیک نہیں ہو گی لہذا اہل اختیار بنیادی وجوہات ڈھونڈیں تب جاکر خرابیاں دُور ہوں گی مگر کچھ خرابیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا تعلق معاشی بہتری کے ساتھ نہیں ہوتا جو تعلیم کے فقدان سے پیدا ہوتی ہیں لہذا ضروری ہے کہ تعلیم کے زریعے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے کہ تعلیم کو سرکاری سطح پر مفت کیا جائے کوئی پرائمری سے لے کر پی ایچ ڈی تک تعلیم کے حصول کا خواہشمند ہے تو اس کو موقع دیا جائے۔ دنیا بھر میں تعلیم یا تو مفت ہے یاپھر معمولی پیسوں کے عوض حاصل کی جاتی ہے ۔مقصد یہ کہ لوگ جہالت کے اندھیرے سے جان چھڑائیں اپنے حقوق و فرائض کو پہچانیں اور سماج میں ایک مثبت کردار ادا کریں مگر یہاں تو تعلیم اتنی مہنگی کر دی گئی ہے کہ عام لوگوں کے بچے مڈل میٹرک اور انٹر تک ہی پہنچ پاتے ہیں اس کے بعد روزی روٹی کے لئے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں جب انہیں کوئی روزگا میسر نہیں آتا تو وہ آسان راستوں پر چل نکلتے ہیں جو انہیں پس زنداں تک لے جاتا ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ اگر وہ سماجی مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہے تو وہ درسگاہوں کو غریب آدمی سے دُور نہ کرے انہیں نزدیک لانے کی سوچے مگر بات وہی کہ اب یہ خلا آسانی سے پُر نہیں ہونے والا اس کے لئے ڈھیروں رقوم درکار ہوں گی جو مغربی ممالک دے سکتے ہیں وہ اب بھی دے رہے ہیں ۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں جتنے بھی اخراجات ہوتے ہیں انہیں وہی برداشت کرتے ہیں۔ ہمارے با اختیاروں کے تو اپنے اخراجات بہت ہیں۔ ویسے بھی وہ لوگوں کو اندھیرے میں ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ انہیں جان سکیں نہ پہچان سکیں مگر یہ ان کی خوش فہمی ہے بھلا سوشل میڈیا کے دور میں ایسا ممکن ہو سکتا ہے نہیں بالکل نہیں۔ اس میڈیا نے تو لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تعلیم اور تعلیمی ادارے بند ہو جانے چاہیں ان کو تو لازمی ہونا چاہیے کیونکہ درسگاہوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور سوشل میڈیا کی اپنی جگہ۔ درسگاہیں تعلیم کے ساتھ سندیں بھی دیتی ہیں جو عام زندگی میں کام آتی ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ پُر امن سماج کے لئے ضروری ہے کہ معیشت کو بہتر کیا جائے انصاف تعلیم اور صحت کی سہولیات ہر شہری کو سستی اور آسان مہیا کی جائیں ان کے بغیر ماحول کی گھٹن دور نہیں ہو سکتی لہذا امن کی فاختہ بھی امن کا گیت نہیں گا سکتی !