
شرم الشیخ/برلن:
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے تمام 20 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو "زخموں کے بھرنے کے عمل کی ابتدا” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ خطے میں مستقل اور پائیدار امن کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے زور دیا کہ حماس کی قید میں ہلاک ہونے والے 28 یرغمالیوں کی جسمانی باقیات کو بھی فوری طور پر ان کے اہل خانہ کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ انہیں باوقار طریقے سے الوداع کہہ سکیں۔
738 دن بعد، امید کی کرن
جرمن چانسلر نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا:
"بالآخر، 738 دنوں بعد، یرغمالی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ ان میں جرمن شہری بھی شامل ہیں۔ ان کی رہائی صرف ایک لمحہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے دو سال کی اذیت، خوف، صبر اور امید کی طویل کہانی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ آج کا دن ان خاندانوں کے لیے نئی زندگی کا آغاز ہے جو برسوں سے اپنے پیاروں کی واپسی کے منتظر تھے۔
"زخم بھرنے کا عمل، امن کی طرف قدم”
چانسلر میرس نے مزید کہا:
"آج کا دن ایک نئی شروعات ہے — ایک ایسا لمحہ جب زخم بھرنا شروع ہوتے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن کی سمت ایک تازہ قدم اٹھایا جاتا ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ یرغمالیوں کی بازیابی ایک انسانی ہمدردی کی فتح ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ اس طویل اور پیچیدہ امن عمل کی پہلی جھلک بھی ہے جس کی بنیاد شرم الشیخ میں ہونے والے غزہ امن معاہدے میں رکھی گئی۔
شرم الشیخ امن سمٹ میں شرکت
چانسلر میرس آج پیر کے روز مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری غزہ امن سمٹ میں شریک ہوئے، جہاں ان کے ساتھ دنیا کے 20 سے زائد ملکوں کے سربراہان اور اعلیٰ قیادت موجود تھی۔
یہ سمٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی مشترکہ صدارت میں منعقد ہو رہا ہے۔
شرکاء میں پاکستان، ترکیہ، قطر، فرانس، برطانیہ، اردن، انڈونیشیا، اٹلی اور دیگر ممالک کی قیادت شامل ہے۔ اجلاس کا مقصد غزہ کی تعمیر نو، جنگ بندی کے نفاذ، فلسطینی ریاست کے قیام اور انسانی امداد کی بحالی جیسے اہم نکات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی: امن معاہدے کی پہلی بڑی کامیابی
یہ پیشرفت غزہ امن معاہدے کے تحت سامنے آئی ہے جس پر گزشتہ ہفتے شرم الشیخ میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔
معاہدے کے تحت:
مکمل جنگ بندی
یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ
غزہ میں انسانی امداد کی بحالی
سیاسی عبوری حکومت کا قیام
تعمیر نو کے لیے عالمی فنڈز کا اجراء
طے پایا تھا۔
حماس نے ان 20 یرغمالیوں کو عالمی ریڈ کراس (ICRC) کے ذریعے اسرائیلی حکام کے حوالے کیا، جس کی تصدیق اسرائیلی فوج (IDF) نے بھی کر دی ہے۔
عالمی برادری کا مثبت ردعمل
عالمی رہنماؤں نے اس پیشرفت کو امن کے لیے "پہلا اور عملی قدم” قرار دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، امریکی صدر، ترک صدر ایردوان، اور امیر قطر سمیت کئی عالمی شخصیات نے اسے امن کی بحالی کی امید قرار دیا ہے۔
چانسلر میرس نے اس موقع پر جرمن عوام، یرغمالیوں کے اہل خانہ اور امن کے داعیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
"یہ صرف غزہ یا اسرائیل کی کہانی نہیں، یہ پوری دنیا کے ضمیر کی آزمائش ہے۔ ہمیں اب امن، مفاہمت اور انسانیت کو ترجیح دینی ہوگی۔”
تجزیہ: آیا یہ امن مستقل ہوگا؟
تجزیہ کاروں کے مطابق یرغمالیوں کی رہائی ایک سفارتی کامیابی ضرور ہے، تاہم حقیقی امن کے لیے سیاسی عزم، اعتماد سازی اور دیرپا حل کی ضرورت ہے۔
غزہ کی مکمل تعمیر نو، فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیلی تحفظات جیسے معاملات ابھی حل طلب ہیں۔
اختتامیہ: ایک اہم سنگِ میل، مگر راہ طویل ہے
جرمن چانسلر فریڈرش میرس کا بیان نہ صرف انسانی ہمدردی کی آواز ہے بلکہ ایک سفارتی پیغام بھی کہ امن کی راہ میں پہلا قدم سب سے اہم ہوتا ہے۔
اب عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امید کو عملی شکل دے، تاکہ غزہ اور پورا مشرق وسطیٰ خون، آنسو اور جنگ سے نکل کر روشن، پرامن اور باوقار مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔