
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
پاکستانی حلقوں میں یہ گہری تشویش پائی جاتی ہے کہ مارکہِ حق کے بعد بہار اور مغربی بنگال کے انتخابات کے دوران بھارتی فوجی و سیاسی قیادت کی جانب سے جاری متنازع، مبہم اور اکثراً اشتعال انگیز بیانات نے خطے میں کشیدگی بڑھا دی ہے۔ مقامی سیاسی حلقے، فوجی ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندے اس بیانیے کو خطرناک قرار دیتے ہیں اور بین الاقوامی برادری سے ان بیانات کی شفاف جانچ اور اعتماد سازی کے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں ان دعووں کی ترتیب، ممکنہ سیاسی پس منظر، ردِ عمل اور خطے پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کا تجزیاتی احاطہ کیا گیا ہے۔صورتحال کا پس منظر
مارکہِ حق کے نتیجے میں سامنے آنے والے سیاسی مناظرنامے کے بعد، چند ہفتے یا مہینوں کے اندر بہار اور مغربی بنگال جیسے اہم ریاستی انتخابات میں بھارتی فوجی قیادت کی بعض متنازع بیانات اور بیاناتی طرزِ اظہار نے حیرت اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ ان بیانات کو بعض حلقوں نے ملکی سیاسی عمل میں فوجی مداخلت یا سیاسی بیانیہ گھڑنے کے مترادف قرار دیا جبکہ دیگر نے انہیں انتخابی محاذ پر اثر انداز ہونے کی کوشش سمجھا۔
پاکستان میں ان اعلانات کو سختی سے دیکھا جا رہا ہے؛ کچھ حلقے انہیں انتخابی ماحول میں جاری پروپیگنڈے کا تسلسل اور میڈیا کو ہدف بنانے والی مہم کا حصہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ بعض نے انہیں بین الاقوامی تصویر کشی اور علاقائی ساکھ متاثر کرنے والا قرار دیا ہے۔
پاکستانی ردِ عمل
پاکستانی سرکاری ردِ عمل — جہاں تک عوامی بیانات اور تھرو آفیشنل ردِ عمل تک دیکھا گیا — عمومی طور پر اس نوعیت کا رہا ہے کہ:
پاکستان نے مظبوطی کے ساتھ کہا ہے کہ اپنے حدودِ قوت اور دفاعی صلاحیت کی مکمل حفاظت کرے گا۔
عوامی اور سیاسی قیادت نے فوجی سرکاری بیانات کے حوالے سے خبردار کرنے اور گمراہ کن پروپیگنڈے کی مذمت کرنے کی کوشش کی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا موقف ہے کہ ایسے بیانات مقامی انتخابات یا دوسرے سیاسی عمل کے پس منظر میں اوور پلے اور اندرونی سیاسی پیغام رسانی کا حصہ ہو سکتے ہیں، مگر نتیجہ خیز اثرات دونوں ملکوں کے تعلقات اور سرحدی سلامتی پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
بھارت میں منظرنامہ اور وضاحتیں
بھارتی حکام یا فوجی ترجمانوں کے بیانات کے انداز، آلہ کاری اور مقاصد کے بارے میں مختلف نکات سامنے آئیں:
بعض بھارتی حلقے فوجی بیانات کو ملکی دفاعی موقف یا داخلی سیاسی سکیورٹی کے تقاضوں سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔
دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ مسلح افواج کا سیاسی معاملات میں مبہم انداز اختیار کرنا جمہوری عمل اور فوجی غیرجانبداری کے اصولوں کے خلاف ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اکثر یہی توقع کی جاتی ہے کہ کسی بھی فوجی قیادت کو بیانات دیتے وقت اضافی احتیاط برتنی چاہیے تاکہ غلط فہمیوں اور کشیدگی کے امکانات کم ہوں۔
مبصرین اور ماہرینِ عسکریت کی رائے
فوجی اور علاقائی تجزیہ کار عام طور پر متفق ہیں کہ:
کسی بھی ملک کی مسلح افواج کو سیاسی بیانیہ سازی میں شامل ہونے سے گریز کرنا چاہیے؛ فوج کی ساکھ اور غیرجانبداری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
جارحانہ یا غیر روایتی بیانات سرحدی کشیدگی کو ہوا دے سکتے ہیں، خاص طور پر جب دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تاریخی تنازعات یا حساس سرحدی معاملات موجود ہوں۔
پروپیگنڈا اور مبالغہ آرائی عوامی رائے کو بگاڑ سکتی ہے اور خبطِ جذباتی پُر تشدد ردِ عمل کے امکانات بڑھا سکتی ہے، جو خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔
بین الاقوامی نقطۂ نظر اور خطے پر اثرات
بین الاقوامی برادری، بشمول اقوامِ متحدہ اور علاقائی فورمز، عام طور پر اس طرزِ کے بیانات پر تشویش کا اظہار کرتی ہے کیونکہ:
ایسے بیانات خطے میں عدم استحکام کو فروغ دے سکتے ہیں، خاص طور پر جب انہیں نشر و اشاعت کے ذریعے عوامی مزاج بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جائے۔
بیرونی طاقتیں عموماً تناؤ کم کرنے، اعتماد سازی کے مذاکرات شروع کرنے اور شفافیت کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے کی تجویز دیتی ہیں۔
اقتصادی اور تجارتی تعلقات بھی اس قسم کی سیاسی کشیدگی سے متاثر ہو سکتے ہیں — سرمایہ کاری، سرحدی تجارت، اور سیاحت میں کمی کے امکانات ہوتے ہیں۔
ممکنہ خطرات اور سنجیدہ نتائج
تجزیے کے مطابق چند ممکنہ خطرات درج ذیل ہیں:
خطے میں عسکری بالادستی کا خطرہ: بے بنیاد الزامات یا متنازع بیانات عسکری بالادستی یا اشتعال انگیزی کو ہوا دے سکتے ہیں۔
عوامی جذبات کا بڑھنا: پروپیگنڈا یا مبالغے عوامی رائے میں سخت شدّت پیدا کر سکتے ہیں، جو سرکاری پالیسیوں یا عسکری ردعمل پر دباؤ بڑھاتے ہیں۔
اعتماد سازی کا نقصان: سرحدی یا باہمی سلامتی کے امور میں شفافیت کی کمی مذاکراتی عمل کو متاثر کر سکتی ہے۔
علاقائی سلامتی کے خطرات: جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں کسی بھی غلط فہمی کا پھیلاؤ فوری اور دوررس نتائج لا سکتا ہے۔
تجویزات اور راہِ تعاون
ماہرین اور سفارت کاری کے نقطۂ نظر سے کئی اقدامات مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں:
سفارتی رابطے اور چینلز کو بحال رکھنا: دونوں اطراف کو چاہیے کہ فوجی و سول سطح پر براہِ راست اور باقاعدہ بات چیت کے ذریعے شکوک و شبہات دور کریں۔
نیاز مند شفافیت: عسکری بیانات میں حقائق کی فراہمی اور غلط فہمیوں کی فوری درستگی ضروری ہے۔
بین الاقوامی ثالثی یا نگرانی: اگر مقامی سطح پر اعتماد سازی ممکن نہ ہو تو غیر جانب دار عالمی یا علاقائی ادارے ثالثی کے لیے پیش کیے جا سکتے ہیں۔
میڈیا لٹریسی اور عوامی شعور: سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پھیلنے والی مغلوط معلومات کا مقابلہ کرنے کے لیے آزاد اور ذمہ دار صحافت کو فروغ دینا ہوگا۔
دفاعی و سکیورٹی پالیسیوں کا از سرِ نو جائزہ: دونوں ملکوں کو اپنی دفاعی پالیسیوں میں شفافیت اور مناسب محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ غلط اشارے یا حادثاتی شخوصیات سے بچا جا سکے۔
نتیجہ
مارکہِ حق کے بعد سامنے آنے والے بھارتی فوجی بیان اور انتخابی دور کے دوران پھیلنے والی پروپیگنڈا نما بیانات نے خطے میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ہے۔ اس صورتحال نے ایک بار پھر واضح کیا کہ عسکری قیادت اور سیاسی قیادت کو عوامی بیانات میں اضافی احتیاط برتنی چاہیے، اور تنازعات کو بڑھنے سے روکنے کے لیے باہمی اعتماد سازی، شفافیت اور سفارتی بات چیت ناگزیر ہے۔ خطے میں پائیدار امن کا تقاضا یہی ہے کہ تمام فریق حکمت اور تحمل سے کام لیں اور جارحانہ زبان یا مبہم بیانات سے پرہیز کریں۔