
اے ٹی ایم میں ’کیش ٹریپنگ اور بڑھتی ہوئی جعل سازی کا خطرہ……..سید عاطف ندیم
ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جہاں رقم سسٹم سے کٹ گئی مگر باہر نہ آئی — بعد ازاں واردات کار آ کر وہی رقم اپنے کارڈ کے ساتھ نکال لیتے ہیں۔"
ڈیجیٹل بینکاری نے عوام کے لیے مالیاتی سہولیات کو آسان بنا دیا ہے، مگر اسی تبدیلی کے ساتھ فراڈ کے جدید طریقے بھی عروج پر پہنچے ہیں۔ راولپنڈی میں ایک تازہ واقعہ اس دہانے کی واضح مثال ہے جہاں اے ٹی ایم سے رقم نکالنے کے بعد مشین میں رقم پھنس گئی اور بعد ازاں جعل ساز وہی رقم لے کر فرار ہو گیا — واقعہ جسے بینکنگ ماہرین اور سکیورٹی ادارے ’کیش ٹریپنگ‘ یا عام فہم میں سکیمِنگ کی شکل میں بیان کر رہے ہیں۔
"عمومًا جعل ساز اے ٹی ایم کے سامنے یا رقم نکلنے والے راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ لگا دیتے ہیں جس سے صارف کو محسوس ہوتا ہے کہ مشین خراب ہے۔ تاریخ میں بھی ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جہاں رقم سسٹم سے کٹ گئی مگر باہر نہ آئی — بعد ازاں واردات کار آ کر وہی رقم اپنے کارڈ کے ساتھ نکال لیتے ہیں۔”
کچھ وارداتوں میں کیمرہ یا پیِن چوری کے لیے ڈیوائسز (skimming devices) بھی نصب کیے جاتے ہیں جو صارف کا کارڈ ڈیٹا اور پن حاصل کر لیتے ہیں، اور کچھ میں جسمانی طور پر رقم کا راستہ بند کر دیا جاتا ہے تاکہ رقم باہر نہ آئے۔
متعلقہ بینکوں نے عوام کو آگاہی پیغامات جاری کیے ہیں جن میں درج احتیاطی تدابیر شامل ہیں:
اے ٹی ایم استعمال کرنے سے پہلے رقم نکلنے والے حصے (cash dispenser) کو اچھی طرح چیک کریں کہ کہیں کوئی غیر معمولی چیز تو موجود نہیں۔
اگر کوئی ڈھیلا یا مشکوک آلہ، چپکی ہوئی چیز یا پیچیدہ ساخت نظر آئے تو مشین استعمال نہ کریں۔
رقم نکلنے کے بعد رسید محفوظ رکھیں اور فوری طور پر رقم نہ ملنے کی صورت میں بینک یا ہیلپ لائن سے رابطہ کریں۔
اے ٹی ایم کے قریب مشکوک افراد یا جلد بازی میں مدد کی پیش کش کرنے والوں سے محتاط رہیں۔
اپنے کارڈ کے ساتھ ساتھ پن کو نجی رکھیں؛ پن داخل کرتے وقت جسم سے ڈھک کر درج کریں۔
اگر ٹرانزیکشن کے بعد رقم کٹ گئی مگر نقدی باہر نہ آئی تو فوری طور پر بینک برانچ یا متعلق ہیلپ لائن کو اطلاع دیں، کارڈ بلاک کروائیں اور رسید محفوظ رکھیں۔
ماہرین اور بینک حکام دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے باعث اے ٹی ایم سیکیورٹی کے انتظامات بھی بہتر ہوئے ہیں—کیمروں، اینٹی سکمنگ ڈیوائسز، اور باقاعدہ چیکنگ کی بدولت براہِ راست نقل و حمل کرنا پہلے جتنا آسان نہیں رہا۔ تاہم جعل ساز بھی نئے طریقے اپناتے جا رہے ہیں، اس لیے بینکنگ سیکٹر، سکیورٹی ادارے اور صارفین کو مل کر آگاہی اور احتیاطی اقدامات جاری رکھنے ہوں گے۔
مزید برآں، بعض بینک اے ٹی ایم مشینوں کی باقاعدہ جانچ، اینٹی اسکمنگ انسٹالیشنز اور مقامی برانچوں میں فوری شکایات کے لیے عملہ تعینات کر رہے ہیں تاکہ ٹرانزیکشن کے فوراً بعد ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔
سائبر کرائم سے نمٹنے والے ادارے اور مقامی پولیس کی طرف سے بھی ایسے واقعات کی تفتیش جاری رہتی ہے۔ واردات کے اسی پیرائے میں شواہد — اے ٹی ایم کے قریبی سی سی ٹی وی فوٹیج، کارڈ ڈیٹا، اور متاثرہ فرد کی رسیدیں — مقدمات کے حل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ متاثرہ شہری کو بھی چاہیے کہ وہ فوراً شکایت درج کروائے تاکہ وقت پر انویسٹی گیشن ممکن ہو سکے۔
ایسے واقعات سے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوتا ہے اور کمزور طبقے، بزرگ اور غیر معاشی طور پر باخبر افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ جب نقدی فوری طور پر حاصل نہ ہو تو روزمرہ اخراجات متاثر ہوتے ہیں اور عدالتی/بینک ریمیدی تک رسائی میں وقت لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے جرائم اعتماد کو بھی مجروح کرتے ہیں جو ڈیجیٹل بنکاری کے فروغ کے لیے نقصان دہ ہیں۔
صارفین کی شعور افروزی، بینکوں کی فوری شکایات نمٹانے کی صلاحیت، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت تفتیش ضروری ہے۔ مخصوص تجاویز میں شامل ہیں:
اے ٹی ایم سائٹس پر واضح ہدایات اور ہیلپ لائن نمبرز آویزاں کیے جائیں۔
اے ٹی ایم پر باقاعدہ اینٹی اسکمنگ آڈٹ اور کیمرہ چیکنگ لازمی ٹھہرا دی جائے۔
بینک صارف کو ٹرانزیکشن کے فورا بعد ایس ایم ایس/نوٹیفیکیشن بھیجیں تاکہ اگر رقم باہر نہ آئے تو فوری طور پر اطلاع ہو۔
عوامی آگاہی مہمیں چلائیں خاص طور پر بزرگوں اور کم تعلیم یافتہ افراد کے لیے۔
فوری طور پر شکایت درج کرنے پر بینک کاروائی میں تیزی لائے اور کارڈ بلاک کرنے جیسے اقدامات فوراً ممکن ہوں۔
پولیس اور سائبر کرائم یونٹس کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے تاکہ واردات کرنے والوں کو جلدی گرفتار کیا جا سکے۔
آن لائن بینکنگ اور اے ٹی ایم نے زندگی آسان بنائی ہے، مگر فراڈ کے نئے انداز نے بھی صارفین کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ راولپنڈی کا حالیہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ شہریوں کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور بینکنگ سیکٹر کو حفاظتی اقدامات میں مزید شفافیت، رسپانس ٹائم اور عوامی آگاہی فراہم کرنی ہوگی۔ جب تک یہ تمام شراکت دار مل کر مربوط حکمتِ عملی اختیار نہیں کرتے، ایسے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہیں گے اور عوامی اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔


