
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) – وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی زیرصدارت افغان مہاجرین کی واپسی سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو کسی بھی قسم کی اضافی مہلت نہیں دی جائے گی، اور ان کی فوری، منظم اور باعزت واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ ریاست پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اجلاس میں ملک کی سکیورٹی صورتحال، افغانستان سے دراندازی، اور افغان مہاجرین کی واپسی کے انتظامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
افغان سرزمین سے دہشت گردی: تشویش ناک صورت حال
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغان سرزمین کا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ایک سنجیدہ اور قابلِ تشویش مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ برادر ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی کوشش کی، تاہم حالیہ دنوں میں افغان سرزمین سے پاکستانی علاقوں پر حملے اور خوارج کی دراندازی ناقابل قبول ہے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور دیگر اعلیٰ حکام متعدد بار کابل گئے، افغان عبوری حکومت کو دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کیا اور ان کے تدارک پر زور دیا۔ تاہم، مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
افواج پاکستان کی کارروائیوں کو خراجِ تحسین
وزیراعظم نے شمالی وزیرستان اور دیگر سرحدی علاقوں میں افغان حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف جاری فوجی آپریشنز میں کامیابی پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور افواجِ پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ افواجِ پاکستان نے قومی سلامتی کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور افغان حملوں کو مؤثر انداز میں پسپا کیا۔
افغان مہاجرین کی واپسی: مرحلہ وار عمل جاری، 14 لاکھ سے زائد واپس بھیجے جا چکے
اجلاس میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ بتایا گیا کہ 16 اکتوبر 2025 تک 14 لاکھ 77 ہزار 592 غیر قانونی افغان باشندوں کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے۔ مرحلہ وار عمل کے تحت یہ مہم جاری ہے اور مزید مہاجرین کی واپسی آئندہ دنوں میں مکمل کی جائے گی۔
واضح کیا گیا کہ پاکستان میں صرف انہی افغان شہریوں کو قیام کی اجازت ہو گی جن کے پاس درست ویزہ اور قانونی دستاویزات موجود ہوں گی۔
تمام صوبوں کو بھرپور کردار ادا کرنے کی ہدایت
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ تمام صوبائی حکومتیں، وفاقی اور ضلعی ادارے باہمی مشاورت اور قریبی رابطے کے ساتھ اس عمل کو تیز، مؤثر اور قانون کے مطابق مکمل کریں۔ اجلاس میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی قیادت نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی اجلاس میں شریک نہ ہو سکے، ان کی نمائندگی مزمل اسلم نے کی۔ وزیراعظم نے وزیراعلیٰ کے ساتھ گزشتہ روز ہونے والی ٹیلیفونک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت صوبے کی ترقی و فلاح میں بھرپور تعاون کرے گی۔
ایگزٹ پوائنٹس کی تعداد میں اضافہ، قانون کی سختی
حکام نے اجلاس کو بتایا کہ افغان باشندوں کی جلد واپسی کے لیے ایگزٹ پوائنٹس کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے تاکہ عمل میں تیزی لائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی افغانوں کو پناہ دینے، انہیں گیسٹ ہاؤسز میں رکھنے یا کسی بھی قسم کی سہولت فراہم کرنے کو قانوناً جرم قرار دیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے تمام اداروں کو ہدایت کی کہ ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے جو غیر قانونی پناہ گزینوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
بزرگوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے ساتھ عزت و احترام
وزیراعظم نے زور دیا کہ غیر قانونی افغان باشندوں کی واپسی کے دوران انسانی وقار کا خاص خیال رکھا جائے۔ خاص طور پر بزرگ، خواتین، بچے اور اقلیتی برادری کے افراد کے ساتھ باعزت اور مہذب رویہ اپنایا جائے تاکہ پاکستان کا انسانی حقوق کے حوالے سے مثبت تاثر برقرار رہے۔
پاکستان کی پالیسی واضح: مہاجرین کی میزبانی ختم، قومی سلامتی اولین ترجیح
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس اور اس کے فیصلے پاکستان کی بدلتی ہوئی خارجہ و داخلہ پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی دہائیوں پر محیط میزبانی کے بعد پاکستان اب واضح کر چکا ہے کہ قومی سلامتی، سکیورٹی اور معیشت کو کسی صورت خطرے میں نہیں ڈالا جائے گا۔
خلاصہ:
وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس میں افغان مہاجرین کو مزید مہلت نہ دینے کا فیصلہ
14 لاکھ 77 ہزار سے زائد افغان باشندے واپس بھیجے جا چکے
صرف قانونی ویزہ رکھنے والوں کو پاکستان میں قیام کی اجازت
افغان دراندازی پر تشویش، افغان حکومت سے متعدد بار احتجاج
افواج پاکستان کی کامیاب کارروائیوں پر خراج تحسین
تمام صوبوں کو واپسی کے عمل میں متحرک کردار ادا کرنے کی ہدایت
غیر قانونی افغانوں کو تحفظ دینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا عندیہ
یہ اقدام نہ صرف پاکستان کے سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے اہم ہے بلکہ خطے میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کا بھی حصہ ہے۔