کالمزناصف اعوان

منظر کوئی بھی ہو‘ بدل جاتا ہے ! ناصف اعوان

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے گاؤں میں کوئی سرکاری ڈسپنسری نہیں ہوتی تھی لہذا آنکھوں کے موسمی امراض کے علاج کے لئے اپنے قریبی گاؤں میں جانا پڑتا تھا

جن لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ان کی شہرت و دولت کا سورج طلوع ہوا ہے تو اسے غروب نہیں ہونا وہ غیر سنجیدہ ہوتے ہیں. وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وقت تھم چکا ہے اسے ہمیشہ ایک ہی مقام پر رہنا ہے
مگر فطرت کا قانون تبدیل نہیں ہوتا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کل تک جو ایک ستارہ کی مانند چمک رہے تھے آج وہ اندھیروں میں گُم ہیں ۔ وہ جو کبھی زر و جواہر میں کھیل رہے تھے اب ایک ایک پیسے کو ترس رہے ہیں اور جنہیں غربت نے اپنے بازوؤں میں جکڑ رکھا تھا انہیں اس سے رہائی مل چکی ہے وہ اپنے مشکل دنوں کو بھلا کر ایک پُر آسائش زندگی بسر کرنے لگے ہیں لہذا ہمیں ارتقائی عمل کو نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ رکتا نہیں آگے کی طرف بڑھتا ہے اور حالات و واقعات کی صورت بدلتا رہتا ہے مگر کچھ لوگ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اچانک ابھرنے والے کسی منظر کو دیکھتے ہیں تو پریشاں ہو جاتے ہیں۔
بہرحال گزرتے وقت کے ساتھ بہت سی تبدیلیاں آرہی ہیں جو موافق بھی ہیں اور غیر موافق بھی ۔ انسانی مزاج سے لے کر نظام زندگی تک سب پہلے والی شکل میں موجود نہیں لہذا لوگ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر انہیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ ماضی میں انہیں بہت سی سہولتیں حاصل نہیں تھیں جیسے ہسپتال ‘کالج یونیورسٹیاں‘ جدید زرعی آلات‘ طبی ماہرین‘ موبائل فون ‘ کمپیوٹر اور اب اے آئی‘ ایسی سہولتوں نے ان کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے وہ بیٹھے بٹھائے کاروبار کر سکتے ہیں. جیسی چاہیں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ جگہ جگہ قائم ہونے والے شفا خانوں سے بروقت ملنے والے علاج معالجہ نے بہت سے بیمار یوں پر قابو پا لیا ہے۔ ذرائع نقل و حمل سے سفری دورانیہ کم ہوا ہے۔ وہ آرام دہ بھی ہو گیا ہے اس طرح اور بہت سی نئی چیزوں نے زندگی کو آسان بنایا ہے کیونکہ انسانی ضروریات نے نئی نئی ایجادات کو متعارف کروایا ہے ۔ نئے نئے نظام حیات سامنے آرہے ہیں دیرینہ مسائل حل ہو رہے ہیں ۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ادارے اور محکمے وجود میں آرہے ہیں تاکہ لوگوں کی پریشانیاں کو کم کیا جا سکے ۔
یوں جینے کا انداز وہ نہیں رہا جو بیس تیس یا اس سے پہلے ہوا کرتا تھا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے گاؤں میں کوئی سرکاری ڈسپنسری نہیں ہوتی تھی لہذا آنکھوں کے موسمی امراض کے علاج کے لئے اپنے قریبی گاؤں میں جانا پڑتا تھا وہاں ایک بنیادی شفاخانہ ہوتا تھا جس میں فوری ریلیف دینے والی دوائیں موجود ہوتیں جنہیں ایک سند یافتہ ڈسپنسر دیتے تھے وہ بڑے قابل تھے یہ دوائیں حکومت کی طرف سے ہوتیں جو مفت دی جاتیں لہذا ان سے ریلیف مل جاتا کیا زمانہ تھا وہ بھی ۔
ملیریا بخار جب ہوتا تو بھی اُدھر کا رخ کیا جاتا ۔ہمارے گاؤں میں دو حکیم صاحبان بھی تھے جو مزمن بیماری کی دوا دیتے کسی کو افاقہ ہوتا اور کسی کو نہیں مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا طبی سہولیات ہمارے دہلیز تک پہنچ گئیں اب وہاں ایک بڑا ہسپتال ہے درسگاہیں ہیں۔ بجلی پہلے نہیں تھی اب ہے ۔کیبل اور نیٹ دونوں چیزیں موجود ہیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ارتقائی عمل نے بہت کچھ بدل دیا ہے جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں ۔ ابادی بڑھنے سے دیہاتوں میں کھیتی باری کا کام محدود ہو تا جارہا ہے مگر صنعتوں نے محدود ہوتے اس کام کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے لہذا جو کوئی بھی فارغ ہونے کے قریب تھا یا فارغ ہو رہا تھا اس کو کارخانوں فیکٹریوں میں مصروف ہونے کا موقع مل گیا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس وقت صنعتیں کم پڑتی جا رہی ہیں مگر یہ بھی ہے کہ بے روزگار طبقہ یورپ کی جانب چل پڑا ہے کہ وہاں کم ہوتی ابادی کی وجہ سے مزدوروں کی اشد ضرورت ہے
۔آپ سیاست کو دیکھ لیجیے کچھ عرصہ قبل کی سیاست کاری بڑی رکھ رکھاؤ کے ساتھ ہوتی تھی لوگوں سے بہت سی کمیاں کوتاہیاں چھپائی جاتی تھیں ۔بڑی حد تک تہزیب کے دائرے میں رہا جاتا تھا اپنی طرف عوام کو متوجہ کرنے کے لئے کردار و گفتار کا خیال رکھا جاتا سماجی کاموں میں بھر پور دل چسپی ظا ہر کی جاتی مگر اب اس میں واضح تبدیلی آچکی ہے عوام کیا سوچیں گے اس کی کسی کو پروا نہیں ہوتی ۔کاموں کے وعدے کرتے جاؤ ان پر من و عن عمل درآمد بے شک نہ کرو بس گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے رہو اتنا ہی کافی ہے ۔ مہنگائی کو کنٹرول کرو یا نہ کرو کوئی بات نہیں ٹیکس جتنے مرضی لگاتے رہو عوام چیختے چلاتے رہیں کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کیونکہ عوام میں ہمت نہیں رہی کہ وہ کوئی منظم احتجاج کریں اگر کریں گے تو ان پر انتظامیہ ٹوٹ پڑے گی وہ کوئی لحاظ نہیں کرے گی کہ کسی کا سر پھٹتا ہے یا اس کا بازو ٹوٹتا ہے اس طرح بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے کچھ مثبت اور کچھ منفی ۔
انسانی اقدار بھی متاثر ہو رہی ہیں رشتہ داریوں میں ایک تغیر دیکھنے کو مل رہا ہے وہ چاہت وہ ہمدردی کے جزبات سرد پڑ گئے ہیں ذاتی مفادات کو ہی پیش نظر رکھا جا رہا ہے ۔باہمی تعلق میں ایک خلیج پیدا ہو رہی ہے اس کی وجہ ذرائع ابلاغ ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی ہے جس نے شعور تو دیا ہے مگر ہر کوئی اس سے تعلق جوڑتے ہوئے اپنے ہی حصار میں قید ہو کر رہ گیا ہے لیکن ایسا بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ مشینیں انسانی جذبات کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں ان پر انحصار نہیں کیا جا سکتا انہوں نے ذہنوں کو منتشر کیا ہے دماغی قوت کو بھی کم کیا ہے اور ان سے توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتیں مگر یہ پہلو بھی سامنے رہے کہ موجودہ دور کی آر ٹیفیشل انٹیلیجنس نے بہت سی آسانیاں بھی پیدا کر دی ہیں ۔اب تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص اس سے استفادہ کر سکتا ہے ۔ شروع میں ہم نے عرض کیا ہے کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حالت موجود اسی طرح رہے گی وہ نادان ہیں کیونکہ تغیر وتبدل کا سلسلہ جاری ہے۔
بات سوچنے کی ہے کہ جب کوئی منظر ٹھہرتا نہیں لمحات ساکت نہیں ہوتے اور رُتیں بدلتی رہتی ہیں تو پھر کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ حالت موجود اسی طرح رہے گی۔یہ اس کی کم فہمی وکم علمی ہے۔ اسے تنہائی میں سوچنا چاہیے کہ جب صبح ہوتی ہے تو شام بھی ہوتی ہے پھر اس کے بعد ایک نئی سویر طلوع ہو جاتی ہے ۔ حقائق حقائق ہوتے ہیں انہیں تسلیم کر لینا چاہیے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button