
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی،آئی ایس پی آر کے ساتھ
اسلام آباد: پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ہفتہ کے روز ملٹری اکیڈمی کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں افغانستان میں موجود شدت پسند عناصر خصوصاً وہ گروپس جن کے ٹھکانے افغانستان کی سرزمین پر ہیں، پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “طالبان رجیم ان دہشت گردوں کو لگام ڈالے جن کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں اور وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے اندر سفاکانہ حملوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔”
Field Marshal Asim Munir Amazing Speech
فیلڈ مارشل نے اپنے بیانات میں ایک واضح پیغام انڈیا کے لیے بھی دیا: “میں انڈین فوج کی قیادت کو مشورہ دیتا ہوں اور خبردار کرتا ہوں کہ ایٹمی ماحول میں جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔” انہوں نے کہا کہ پاکستان “بیان بازی سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوگا” اور معمولی اشتعال انگیزی کا بھی “بلاخوف، فیصلہ کن جواب” دیا جائے گا — ایسی کسی بھی جارحیت کے “پورے خطے” کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے جن کی ذمہ داری ملکِ ہند پر عائد ہوگی۔
تقریب اور پیغام کا پس منظر
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پاسنگ آؤٹ پریڈ میں افواجِ پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری کی تعریف کی اور دعویٰ کیا کہ "معرکہ حق بنیان مرصوص میں افواج پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا اور ازلی دشمن کے خلاف انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں کارروائیاں کرتے ہوئے رافیل طیاروں کو مار گرایا۔” ان بیانات کا مقصد بظاہر قومی عزم کو مضبوط بنانا اور بیرونی مداخلت کے حوالے سے واضح دفاعی پالیسی کا اظہار ہے۔
عسکری اور سفارتی اشارے
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان اپنے بنیادی مسائل “باہمی احترام اور بین الاقوامی روایات” کے مطابق طے کرنے پر یقین رکھتا ہے، مگر ساتھ ہی سخت خبردار کیا کہ “جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا منبع ہوگا، اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔” وہی پیغام انہوں نے دوہرایا کہ ملک میں اتحاد اور قومی حوصلہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔
اس موقع پر فیلڈ مارشل نے سعودی عرب کے ساتھ حالیہ مشترکہ اسٹریٹجک دفاعی معاہدے کا بھی ذکر کرتے ہوئے اسے “قوم کے لیے فخر” قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ پاکستانی عوام اور افواج کے لیے فخر کا لمحہ ہے اور خلیجی خطے اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی ضمانت ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کا شعر بھی پڑھا، جس کا پس منظر مذہبی اور علاقائی وابستگی پر زور دینا تھا۔
افغان حکومت اور طالبان کے حوالے سے مطالبات
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں واضح طور پر افغانستان کی سرزمین پر موجود عناصر کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے سلسلے کو “ریاستی پشت پناہی” کے تناظر میں بتایا اور دعویٰ کیا کہ انڈیا نے ریاستی سطح پر ایسے عناصر کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا ہے۔ انہوں نے افغان عوام پر زور دیا کہ وہ تشدد اور حقائق چھپانے کو ترک کرکے مشترکہ استحکام اور ترقی کو ترجیح دیں۔
داخلی دفاعی حکمتِ عملی اور عوامی اتحاد
فیلڈ مارشل نے کہا کہ سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مقامی عوام خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے باشندے مل کر اس “فتنہ” کو شکست دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ روایتی جنگ میں پاکستان کی کامیابی کی طرح، کسی بھی پراکسی قوت کو بھی "ہم نیست و نابود کر دیں گے” — یہ الفاظ ممکنہ داخلی اور سرحدی کارروائیوں کی پیشگی وارننگ کے مترادف ہیں۔
ممکنہ نتائج اور علاقائی اثرات
فیلڈ مارشل کے بیانات چند سطحوں پر اہمیت رکھتے ہیں:
سرحدی کشیدگی کا امکان: افغانستان میں موجود گروہوں کے خلاف پاکستان کی سخت پالیسی بڑھنے سے سرحدی تناؤ میں اضافہ متوقع ہے، خاص طور پر اگر مطالبات پر عملدرآمد نہ ہوا یا جواب میں حملے/جوابی اقدامات سامنے آئے۔
سفارتی روابط: پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے کو اجاگر کرنا، علاقائی اتحادیوں کے ساتھ مضبوط تعلقات کی نشاندہی کرتا ہے — یہ بیانیہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش بھی ہے۔
خطرہ اشتعال انگیزی کا: “ایٹمی ماحول” کے حوالے اور انڈیا کو دی گئی وارننگ خطے میں کسی بھی صورت حال کے پھیلاؤ کی سنگینی کو واضح کرتی ہے؛ اس سے خطے کے دیگر کھلاڑیوں کی بھی توجہ مبذول ہوگی۔
عوامی موٹیویشن: فوجی کمان کے ایسے بیانات اندرونی طور پر قومی یکجہتی اور فوجی عزم بڑھانے کا مقصد رکھتے ہیں، جو سیاسی قیادت کے بیانات اور عوامی ردعمل پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ — پیغام، حقیقت اور آگے کا راستہ
فیلڈ مارشل عاصم منیر کا پیغام دو حصوں پر مشتمل ہے: ایک جانب اندرونی سیاست اور دفاعی قابلیت کا اعادہ، اور دوسری جانب بیرونی کھلاڑیوں خصوصاً انڈیا اور افغانستان سے متعلق سخت مطالبات۔ ان بیانات کو سمجھنے کے لیے چند حقائق کو سامنے رکھنا ضروری ہے:
ثبوت اور عملدرآمد: طالبان یا افغان انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کا تقاضا تو واضح کیا گیا ہے، مگر اس کا عملی نفاذ، اس کی کامیابی اور کیا اقدامات کیے جائیں گے — یہ تمام پہلو آئندہ واقعات پر منحصر ہوں گے۔
علاقائی ردعمل: ان بیانات کا فوری نتیجہ سفارتی سطح پر سخت تبصرے یا اقدامات کی صورت میں آسکتا ہے، جبکہ طویل مدتی میں خطے میں سیکورٹی تعاون یا بین الاقوامی ثالثی کی ضرورت بڑھ سکتی ہے۔
قومی تاثر: فوجی قیادت کا سخت لہجہ قومی معیشت، سیاست اور عوامی ذہنیت پر اثر ڈال سکتا ہے؛ حکومت کو داخلی استحکام اور بین الاقوامی نقطہ نظر کے بیچ توازن برقرار رکھنا ہوگا۔
نتیجہ
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تقریر نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے مسلح افواج افغانستان میں موجود کسی بھی “ہمسائے” کو جو پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں، برداشت نہیں کریں گی، اور ساتھ ہی انہوں نے انڈیا کو بھی ایٹمی دائرے میں کسی قسم کی جارحیت کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔ اب اس خطے میں امن و استحکام کے لیے جو اہم قدم درکار ہے وہ مقامی، علاقائی اور بین الاقوامی عملداری کے ذریعے تنازعات کی سیاسی و سفارتی بنیادوں پر نشاندہی اور حل ہے، ورنہ عسکری بیانات اور جوابی ردِعمل کشیدگی کو بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔