
رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز:
پاکستان کے سکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ وفاقی فورسز نے سرحد کے پار افغانستان میں تحریکِ طالبانِ پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حوالے سے شناخت شدہ حافظ گل بہادر گروپ کے ٹھکانوں کو “انتہائی درستی سے” فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ کارروائیاں جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب اس اعلان کے کچھ دیر بعد کی گئیں جس میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کا ذکر تھا۔
ہلاکتیں اور زخمی — طبی اور مقامی ذرائع کی رپورٹ
پکتیکا صوبائی ہسپتال کے ایک عہدہ دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم 10 شہری ہلاک اور 12 زخمی ہوئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ اس عہدہ دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی۔ ایک سینیئر طالبان عہدہ دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ پکتیکا کے تین مقامات پر بمباری کی گئی جس کے باعث کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے اور انہوں نے خبردار کیا کہ ’افغانستان اس کا جواب دے گا۔‘
دوسری جانب افغانستان کرکٹ بورڈ نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس علاقہ میں منعقدہ ایک ٹورنامنٹ کے لیے موجود تین کھلاڑی بھی حملے میں ہلاک ہو گئے — اس نے پہلے آٹھ افراد کی ہلاکت کی اطلاع بھی دی تھی۔ کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ ماہ پاکستان کے ساتھ ہونے والی سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز سے دستبردار ہو رہا ہے، جس سے کھیل اور سفارتی تعلقات پر بھی اثرات مرتب ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔
پاکستان کا موقف اور الزام
پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ شمالی وزیرستان سے چلائے گئے ایک خودکش حملے میں ملوث تھا، جس میں سات پاکستانی فوجی اور پیرامیلیٹری اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستانی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے کابل پر سخت موقف اختیار کیا اور الزام عائد کیا کہ افغانستان ’انڈیا کا آلہ کار‘ بن کر پاکستان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ انہوں نے ایکس (تویٹر) پر لکھا کہ ’’اب سے، احتجاجی مراسلے امن کی اپیل کے طور پر نہیں بھیجے جائیں گے اور وفود کو کابل نہیں بھیجا جائے گا۔ جہاں کہیں بھی دہشت گردی کا منبع ہوگا، اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘‘
طالبان حکومت کا موقف
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ان کی افواج کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ جب تک پاکستانی فورسز ’پہلے فائر‘ نہ کریں، وہ حملہ نہ کریں۔ انہوں نے افغان ٹی وی چینل آریانا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا: ‘‘اگر وہ ایسا کرتے ہیں، تو آپ کو اپنے ملک کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔’’
بین الاقوامی ردِ عمل
خبروں میں یہ بھی آیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا ہے کہ ’’مجھے علم ہے کہ پاکستان نے افغانستان پر حملہ کیا ہے، اس (معاملے کو) حل کرنا میرے لیے آسان ہو گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ جنگیں رکوانا چاہتے ہیں اور اُن کے بقول وہ ‘‘لاکھوں افراد کی زندگیاں بچا چکے ہیں۔’’ صدر نے سابق امریکی صدور پر بھی تنقید کی کہ ’’ان میں سے کسی نے کوئی جنگ نہیں روکی بلکہ جنگیں شروع کیں۔‘‘
پس منظر اور ممکنہ نتائج
ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبانِ پاکستان) پاکستان میں مختلف اوقات میں تشدد اور عسکری کارروائیوں میں ملوث رہ چکا ہے۔ سرحد پار سے کارروائیاں اور ان کے ردِعمل نے متواتر دونوں جانب کشیدگی بڑھائی ہے، خاص طور پر افغانستان کے ایسے خطوں میں جہاں مرکزی کنٹرول کمزور ہوتا ہے۔ سرحدی حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتیں محلی آبادی میں غم و غصہ پیدا کرتی ہیں اور علاقائی سیاسی و کھیلوں کے تعلقات (جیسا کہ افغان کرکٹ بورڈ کا پاکستان کے ساتھ سیریز سے انصراف) متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس واقعے کے فوری نتائج میں دونوں جانب عسکری الرٹ، ممکنہ سرحدی جوابی کارروائیاں، اور سفارتی سطح پر سخت بیانات شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو یہ خطے میں موجود دیگر فریقین کے ردعمل اور سفارتی کوششوں کو بھی متحرک کرے گی۔