پاکستاناہم خبریں

دوحہ میں پاک-افغان مذاکرات کا پہلا دور مکمل، فائر بندی میں توسیع پر اتفاق

پاکستانی وفد نے مذاکرات میں واضح کر دیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہیں

وائس آف جرمنی اردو نیوز،عالمی نیوز ڈیسک

دوحہ: قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری اعلیٰ سطحی مذاکرات کے پہلے دور کا اختتام ہو گیا ہے۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں، اور سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں خطے کے امن کو سنجیدہ خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

دوحہ مذاکرات: خطے میں تناؤ کم کرنے کی کوشش

سفارتی ذرائع کے مطابق، مذاکرات کا پہلا دور "مفصل مگر سنجیدہ ماحول” میں مکمل ہوا، جس میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں، پاکستان میں حالیہ حملوں، اور سرحدی خلاف ورزیوں پر تفصیل سے بات چیت ہوئی۔ مذاکرات کا دوسرا دور کل (اتوار کی صبح) دوحہ ہی میں متوقع ہے۔

ان مذاکرات کی میزبانی قطر کے انٹیلی جنس چیف عبداللّٰہ بن محمد الخلیفہ کر رہے ہیں، جو اس عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ قطر کی حکومت اس وقت دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے ایک اہم ثالث بن کر ابھری ہے، اور سفارتی ذرائع اس پیشرفت کو "خطے کے لیے نازک لمحے” سے تعبیر کر رہے ہیں۔

پاکستانی اور افغان وفود کی قیادت دفاعی وزراء کے سپرد

پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کر رہے ہیں، جب کہ افغان طالبان حکومت کی نمائندگی ان کے وزیرِ دفاع ملا محمد یعقوب کر رہے ہیں۔ دونوں وفود میں سینئر سیکیورٹی اور انٹیلیجنس حکام بھی شریک ہیں۔ پاکستانی وفد میں آئی ایس آئی، وزارتِ داخلہ، اور خارجہ امور سے منسلک افسران بھی شامل ہیں، جو ان مذاکرات میں تکنیکی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

افغان وفد میں افغان انٹیلی جنس چیف سمیت دیگر کلیدی حکام شامل ہیں، جو طالبان حکومت کی جانب سے ان مذاکرات کو سنجیدگی سے لینے کا اشارہ دیتے ہیں۔

فائر بندی میں توسیع، پاکستان کا دو ٹوک پیغام

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران ایک بڑی پیشرفت فائر بندی میں توسیع پر اتفاق کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ دونوں فریق اس بات پر متفق ہوئے کہ سرحدی کشیدگی کو مزید بڑھنے سے روکا جائے اور فریقین زمینی سطح پر اپنے کمانڈرز کو بھی اس معاہدے پر عملدرآمد کا پابند بنائیں۔

تاہم، پاکستانی وفد نے مذاکرات میں واضح کر دیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر ناقابلِ قبول ہیں۔ اسلام آباد نے کابل پر زور دیا کہ وہ ان گروپوں کے خلاف فوری، مؤثر اور عملی اقدامات کرے جو پاکستان میں عدم استحکام، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں، پھیلانے میں ملوث ہیں۔

ایک سینئر پاکستانی عہدیدار کے مطابق، "ہم نے افغان وفد پر واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردوں کو افغان پناہ گاہوں سے کارروائیوں کی اجازت دینا نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ دوطرفہ اعتماد کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔"

پس منظر: تعلقات میں تناؤ کی وجوہات

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جن میں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی اور معاونت افغان سرزمین سے ہوتی ہے، جہاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (TTP) سمیت دیگر شدت پسند گروہ محفوظ پناہ گاہوں میں سرگرم ہیں۔

افغان طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیتے۔ تاہم، پاکستان کا مؤقف ہے کہ زمینی حقائق اور انٹیلیجنس رپورٹس طالبان کے بیانات کے برعکس ہیں۔

یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب پاکستان نے بارہا سفارتی ذرائع سے طالبان حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گرد عناصر کے خلاف عملی کارروائی کریں۔ مگر افغان حکومت کی جانب سے کسی خاطر خواہ عمل کی عدم موجودگی نے اسلام آباد کو دفاعی اقدامات پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں سرحدی جھڑپیں ہوئیں جنہیں مبصرین گزشتہ کئی دہائیوں کی بدترین لڑائی قرار دے رہے ہیں۔

عالمی برداری کی مداخلت اور ثالثی کی کوششیں

سرحدی کشیدگی نے عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ قطر اور سعودی عرب اس تنازع کو سفارتی طور پر حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایک دلچسپ پیشرفت میں، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس معاملے پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اس تنازع کے حل میں ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگرچہ موجودہ امریکی انتظامیہ نے اس پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، مگر واشنگٹن کی پالیسی افغانستان میں استحکام پر مرکوز رہی ہے۔

قطر کا سفارتی کردار اور آئندہ کا لائحہ عمل

قطر نہ صرف ان مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے بلکہ ایک متحرک سفارتی پلیٹ فارم کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ قطر ماضی میں بھی طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کر چکا ہے، اور اب وہ ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کم کرنے کی عملی کوششوں میں مصروف ہے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر مذاکرات کا دوسرا دور مثبت رہا تو مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان ایک مشترکہ سیکیورٹی ورکنگ گروپ بھی قائم ہو سکتا ہے، جو دہشت گردی کے خلاف مستقل تعاون کو فروغ دے گا۔

تجزیہ: مستقبل کے امکانات

تجزیہ کاروں کے مطابق، دوحہ مذاکرات پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک اہم موقع ہیں۔ اگر افغان حکومت سنجیدگی سے دہشت گرد عناصر کے خلاف اقدامات کرے، تو یہ نہ صرف سرحدی امن کو ممکن بنا سکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے معاشی، تجارتی اور عوامی تعلقات میں بھی بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔

نتیجہ

دوحہ میں جاری یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں جب خطہ پہلے ہی سیاسی، سیکیورٹی اور معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔ ایسی صورتِ حال میں، دونوں ممالک کا بات چیت کی میز پر آنا ایک مثبت پیشرفت ہے، مگر اصل کامیابی تبھی ممکن ہو گی جب ان مذاکرات کے نتیجے میں زمینی سطح پر پائیدار اور قابلِ عمل اقدامات اٹھائے جائیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button