
رپورٹ: اسپیشل کرکٹ ڈیسک,ناصر خان خٹک-پاکستان، وائس آف جرمنی اردو نیوز
اسلام آباد: پاکستان نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے افغانستان کے تین کرکٹرز کی "ہوائی حملے میں ہلاکت” سے متعلق جاری کردہ غیر مصدقہ اور متنازعہ بیان کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے ایک سیاسی محرکات پر مبنی جانبدارانہ اقدام قرار دیا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنا ہے۔
پاکستان: "ہم سرحد پار دہشت گردی کے سب سے بڑے شکار ہیں”
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان خود سرحد پار دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ رہا ہے، اور اس پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام نہ صرف افسوسناک بلکہ ناقابل قبول ہے۔
دفتر خارجہ کے ذرائع نے کہا:
"یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ آئی سی سی جیسا ادارہ، جو کھیلوں کی غیر جانبداری کا علمبردار ہونا چاہیے، ایک ایسے بیان کو آگے بڑھا رہا ہے جس کی کوئی آزاد تصدیق موجود نہیں۔”
"متنازعہ الزام کو آگے بڑھانے کی کوشش”
آئی سی سی نے اپنے بیان میں بغیر کسی تصدیق یا شواہد کے دعویٰ کیا تھا کہ تین افغان کرکٹرز مبینہ طور پر ایک "ہوائی حملے” میں ہلاک ہو گئے، تاہم پاکستان نے اس بیان کو انتہائی غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک من گھڑت اور متنازعہ الزام ہے جسے سیاسی مقاصد کے تحت آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
پاکستان نے واضح طور پر کہا کہ:
"آئی سی سی نے اپنے بیان میں کسی آزاد یا غیر جانب دار ذریعے کا حوالہ نہیں دیا۔ ایسی حساس صورتحال میں غیر تصدیق شدہ معلومات کو جاری کرنا ایک بین الاقوامی ادارے کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے۔”
جے شاہ اور افغان کرکٹ بورڈ کا مشکوک ہم آہنگ بیان
پاکستانی حکام نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آئی سی سی کے بیان کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کے چیئرمین جے شاہ (جن کا تعلق بھارت سے ہے) نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر اسی موقف کو دہرایا، اور اس کے بعد افغان کرکٹ بورڈ (ACB) نے بھی اسی طرز کا بیان جاری کیا — بغیر کسی شواہد کے۔
حکام نے اسے ایک "بازگشت چیمبر” (Echo Chamber) قرار دیا جہاں سیاسی ہم آہنگی کے تحت ایک مخصوص بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے، جو بظاہر ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے۔
"پاکستان کرکٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے”
پاکستان نے نشاندہی کی ہے کہ یہ واقعہ آئی سی سی کی موجودہ قیادت کے تحت سامنے آنے والے متعدد جانبدارانہ اقدامات کی ایک کڑی ہے، جنہوں نے حالیہ برسوں میں بارہا پاکستانی کرکٹ کو غیر منصفانہ انداز میں متاثر کیا ہے۔
ان میں شامل ہے:
ایشیا کپ میں "ہاتھ نہ ملانے” کا تنازعہ،
میچ شیڈولنگ میں تعصب،
اور اب ایک متنازعہ جانی نقصان کو سیاسی رنگ دینا۔
پاکستان نے کہا کہ ان واقعات نے آئی سی سی کی غیر جانبداری پر شدید سوالات اٹھا دیے ہیں۔
"کھیل کو سیاست سے آلودہ نہ کیا جائے”
پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ:
"ہم نے ہمیشہ یہ مؤقف اپنایا ہے کہ سیاست کو کھیل سے الگ رکھا جائے۔ کرکٹ جیسا کھیل، جو دنیا بھر میں امن، بھائی چارے اور عوامی ہم آہنگی کی علامت سمجھا جاتا ہے، اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا قابل مذمت ہے۔”
آئی سی سی سے فوری اصلاح اور غیر جانبداری بحال کرنے کا مطالبہ
پاکستان نے آئی سی سی سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ:
اپنے متنازعہ بیان کو واپس لے یا اس میں فوری اصلاح کرے۔
آئندہ بغیر ثبوت کے الزامات کو ہوا نہ دے۔
ہر قوم کے ساتھ یکساں سلوک اور غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے، چاہے اس کے عہدے دار کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں۔
حکام نے کہا کہ:
"آئی سی سی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی قومیت کے چیئرپرسن یا رکن کے اثر و رسوخ میں آئے بغیر فیصلے کرے۔ یہ ادارہ ایک عالمی کھیل کا ریگولیٹر ہے، نہ کہ کسی مخصوص ملک کا ترجمان۔”
نتیجہ: کھیل کو امن کا ذریعہ رہنے دیں، پراپیگنڈہ کا ہتھیار نہ بنائیں
پاکستانی مؤقف ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ بین الاقوامی کھیلوں کے ادارے اگر جانبدارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو نہ صرف ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ عالمی کھیلوں کی روح کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
پاکستان توقع کرتا ہے کہ آئی سی سی:
اپنی غیر جانبداری بحال کرے،
غیر تصدیق شدہ بیانات سے گریز کرے،
اور کھیل کو ایک بار پھر امن، اتحاد اور باہمی احترام کا پلیٹ فارم بننے دے۔