
سید عاطف ندیم-پاکستان وائس آف جرمنی اردو نیوز
اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدہ سرحدی صورتحال اور حالیہ جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں فوری جنگ بندی پر اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ فریقین نے مستقبل میں امن و امان کے قیام اور اعتماد سازی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ مذاکرات میں قطر اور ترکی نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
معاہدے کی جھلکیاں اور قومی ردعمل
▪️ اس پیش رفت کو پاکستان کے تمام طبقات اور افغان عوام کی طرف سے سراہا گیا ہے، جو برسوں کی جنگ، بدامنی اور سیاسی غیر یقینی صورتحال سے نجات چاہتے ہیں۔
▪️ پاکستان کی سفارتی حکمت عملی، عسکری عزم اور زمینی حقیقت پر مبنی پالیسی مؤقف نے طالبان کو ایک بار پھر میز پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
▪️ پاکستان نے یہ معاہدہ قانونی، اخلاقی اور عملی بنیادوں پر کیا ہے — اس میں کوئی مبہم نکتہ یا غیر حقیقی بیان بازی شامل نہیں۔
▪️ یہ پیش رفت نہ صرف پاکستان کی قومی سلامتی کا دفاع ہے بلکہ ایک مثبت علاقائی ماحول کی تشکیل کی طرف بھی ایک قدم ہے۔
کلیدی نکات اور معاہدے کی اہم شقیں
🔹 طالبان کی براہ راست ذمہ داری: افغان طالبان کو پہلی بار تحریری طور پر افغان سرزمین سے پاکستان مخالف دہشت گرد کارروائیوں کو روکنے کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
🔹 قطر اور ترکی بطور ضامن: دونوں برادر مسلم ممالک، جو پاکستان سے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات رکھتے ہیں، اس معاہدے میں ضامن کی حیثیت سے شامل ہوئے، جس سے معاہدے کو بین الاقوامی حیثیت اور وزن حاصل ہوا۔
🔹 تجارتی و اقتصادی تعاون کی مشروطی: مستقبل میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت، بارڈر مینجمنٹ اور اقتصادی تعاون مکمل طور پر افغان سرزمین سے دہشت گرد گروہوں کے خاتمے سے مشروط ہوگا۔
🔹 عمل درآمد کی کڑی نگرانی: پاکستان نے معاہدے کے ہر پہلو پر عمل درآمد کی نگرانی اور قطر و ترکی سے باقاعدہ اپ ڈیٹس کا مطالبہ کیا ہے۔
زمینی حقیقت اور پاکستان کا واضح پیغام
معاہدے سے قبل پاکستان نے بھرپور عسکری کارروائیاں کیں، جن میں افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے مخصوص ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملے حالیہ دہشت گرد حملوں کے ردعمل میں کیے گئے، جن کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود نیٹ ورکس نے کی تھی۔ یہ پیغام دوٹوک اور واضح تھا:
❝ اگر افغان طالبان نے دہشت گرد گروہوں کو پناہ یا خاموش حمایت دی، تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے گا۔ ❞
طالبان کے وعدوں کی تاریخ اور حالیہ تنقید
یہ حقیقت واضح ہے کہ افغان طالبان نے ماضی میں بھی دوحہ معاہدے (2020) میں امریکہ سے کیے گئے کئی وعدوں کی خلاف ورزی کی — خاص طور پر اس وعدے کی کہ افغان سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ پاکستان ان وعدوں کی خلاف ورزیوں سے براہ راست متاثر ہوا ہے، جس کے بعد حالیہ معاہدہ دباؤ، طاقت اور سفارت کاری کا امتزاج بن کر سامنے آیا۔
نئے معاہدے کا مقصد اور مستقبل کی سمتیں
🔸 طالبان کو صرف بیانات دینے سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
🔸 ٹی ٹی پی، بی ایل اے، اور دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی اب ان کی ذمہ داری ہے۔
🔸 معاہدے کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی پر سفارتی و عسکری ردعمل کی مکمل تیاری ہونی چاہیے۔
🔸 پاکستان کو چاہیے کہ وہ متفقہ قومی پالیسی مرتب کرے اور یہ معاملہ اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت عالمی فورمز پر اجاگر کرتا رہے۔
علاقائی مضمرات: بھارت، چین، ایران اور وسطی ایشیا کے لیے پیغام
✅ بھارتی پراکسیوں کی ناکامی: معاہدے کے بعد، افغانستان میں بھارت کے پراکسی نیٹ ورکس کے لیے گنجائش محدود ہو گئی ہے، جو طویل عرصے سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔
✅ چین و سی پیک کا تحفظ: پاکستان کی علاقائی سیکیورٹی پالیسی سی پیک کے مکمل تحفظ کے گرد گھومتی ہے، اور افغانستان میں امن، اس منصوبے کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔
✅ وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ انضمام: امن معاہدہ خطے میں معاشی روابط کے فروغ اور پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو مزید تقویت دے سکتا ہے۔
نتیجہ: امن خوش آئند، مگر پاکستان کی قیمت پر نہیں
یہ معاہدہ سفارتی کامیابی سے زیادہ ایک عملی امتحان ہے۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے:
❝ امن پاکستان کی کمزوری نہیں، طاقت کا مظہر ہے۔ لیکن اگر امن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے دہشت گرد یا ریاستی عناصر دوبارہ متحرک ہوئے تو پاکستان فیصلہ کن اقدام سے گریز نہیں کرے گا۔ ❞
دنیا اب دیکھ رہی ہے کہ کیا افغان طالبان اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہیں، یا یہ معاہدہ بھی ماضی کی طرح ایک کاغذی کاروائی بن کر رہ جائے گا۔
اختتامی کلمات
یہ معاہدہ صرف ایک سیاسی دستاویز نہیں، بلکہ پاکستان کی خودمختاری، قومی سلامتی اور علاقائی قیادت کے بیانیے کی توثیق ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب پاکستان ایک نیا علاقائی سیکیورٹی فریم ورک تشکیل دے سکتا ہے — جس کی بنیاد باہمی احتساب، زیرو ٹالرنس برائے دہشت گردی اور باہمی عزت پر ہو۔