
فلسطینیوں تک انسانی امداد کی فراہمی سےمتعلق اسرائیلی ذمے داری ..عالمی عدالتِ انصاف کی رائے
توقع ہے کہ عدالت کی رائے میں دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کے عملے کے لیے مطلوب لازمی تحفظ کے اقدامات پر بھی روشنی ڈالی جائے گی
ہیگ : ایجنسیاں
اقوامِ متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالتی اتھارٹی عالمی عدالتِ انصاف آج (بدھ کو) ایک مشاورتی رائے جاری کرے گی، جو اسرائیل کی اُن ذمہ داریوں سے متعلق ہے جو اسے اقوامِ متحدہ اور غزہ و مغربی کنارے میں سرگرم انسانی امدادی تنظیموں کے حوالے سے ادا کرنی چاہئیں۔
اس رائے کی درخواست اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گزشتہ دسمبر میں کی تھی۔ اب یہ غیر معمولی اہمیت کی حامل سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ اس کے ممکنہ اثرات غزہ کے جاری تنازع سے کہیں آگے تک جا سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ عدالت اپنی رائے میں دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کے اہل کاروں کو درپیش خطرات اور اُن کے تحفظ کی ذمہ داری پر بھی بات کرے گی۔
رواں سال اپریل میں اقوامِ متحدہ کے وکلا اور فلسطینی نمائندوں نے عالمی عدالتِ انصاف کے روبرو اسرائیل پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے مارچ سے مئی کے درمیان غزہ میں انسانی امداد کے داخلے کی اجازت نہ دے کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی۔ اگرچہ اس کے بعد کچھ امدادی سامان کو داخلے کی اجازت دی گئی، تاہم اقوامِ متحدہ کے عہدے داروں کے مطابق یہ مقدار اب بھی انسانی ضرورتوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
اسی دوران یورپی یونین نے منگل کے روز اعلان کیا کہ وہ غزہ کے لیے بھیجی جانے والی امداد کو دو گنا کرنے اور زخمیوں کے انخلا میں تعاون کے لیے تیار ہے۔
یورپی کمیشن کی رکن برائے بحیرہ روم کے امور دوبرافکا شوئیتسا نے کہا کہ یورپی یونین "غزہ میں ملبہ ہٹانے، تلاش اور صفائی کے کاموں میں حصہ ڈالنے کی پیشکش کر رہا ہے”۔
انھوں نے مزید کہا کہ یونین غزہ کے غیر مسلح کرنے میں بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہے بشرطیکہ کوئی حقیقی سیاسی عمل شروع کیا جائے۔ ان کے مطابق یورپی یونین کا موقف ہے کہ غزہ کے حال اور مستقبل دونوں میں فلسطینی اتھارٹی کا کردار ناگزیر ہے۔
غزہ میں اس وقت جنگ بندی کے نفاذ کے سلسلے میں عمومی بے چینی پائی جاتی ہے۔ یہ جنگ بندی تقریباً دو ہفتے قبل عمل میں آئی تھی، جو دو برس تک جاری رہنے والی فوجی کارروائیوں کے بعد ممکن ہوئی۔ ان کارروائیوں نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا اور ایک غیر معمولی انسانی بحران کو جنم دیا۔
فلسطینی اور بین الاقوامی ذرائع کے مطابق، جنگ بندی سے منسلک مفاہمتوں میں انسانی امداد میں اضافہ اور ضروری اشیائے خوردونوش و ادویات کی فراہمی میں بہتری شامل ہے۔
تاہم، بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی سرحدی پابندیاں اور لوجسٹک رکاوٹیں اب بھی عام شہریوں تک امداد پہنچانے میں بڑی رکاوٹ ہیں، اگرچہ گزشتہ دنوں میں معمولی بہتری دیکھی گئی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ کی زیادہ تر آبادی غذائی عدمِ تحفظ کا شکار ہے، جب کہ آدھے سے زیادہ طبی مراکز اور اسپتال اب بھی ایندھن کی قلت اور جنگی نقصان کے باعث کام نہیں کر پا رہے۔