کالمزناصف اعوان

صنعتی ترقی کے بغیر خوشحالی ممکن نہیں …….ناصف اعوان

وہ جب مغرب و یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں پُر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ قانون و آئین کے مطابق جی رہے ہیں

زندگی کو ایک پل بھی چین نہیں کہ غربت کی چکی مسلسل چلے جا رہی ہے ‘ مہنگائی و بے روزگاری پر بی قابو نہیں پایا جا رہا بجلی گیس اور تیل کی قیمتیں بھی آئے روز بڑھ رہی ہیں جس سے ہر شہری سوائے امیروں کے سوچوں میں گُم ہے وہ ہر لمحہ گویا انگاروں پے لوٹ رہا ہے۔ نیچے سے اوپر تک جس کے جی میں جو آتا ہے کر رہا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں ؟
اس طرح تو کوئی بھی سماج ترقی نہیں کر سکتا اور ملک خوشحال نہیں ہو سکتا مگر ہم مایوس بھی نہیں کیونکہ جب ہم انسانی تاریخ میں تبدیلی کے واقعات کو سامنے رکھتے ہیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وقت تھمتا نہیں رُکتا نہیں ارتقائی عمل کو آگےبڑھنا ہوتا ہے وہ جامد نہیں رہ سکتا لہذا آج ہم جس صورت حال و مسائل سے دوچار ہیں وہ کل نہیں ہوں گے کیونکہ اصل میں یہ بدلنے کی طرف ہی جارہے ہیں اگرچہ لگ ایسا رہا ہے کہ حالت موجود اسی طرح رہے گی مگر نہیں یہ سب بدلے گا کہ جو پہلے تھا وہ آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا ہے۔ صدائیں فضاؤں میں بلند ہو رہی ہیں ۔بنیادی حقوق کا تقاضا کیا جا رہا ہے جن کے پاس اختیارات ہیں وہ انہیں سننے پر مجبور ہونے لگے ہیں کچھ عمل بھی کرنے لگے ہیں مگر یہ پہلو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا کامل یکسوئی حاصل نہیں ہو گی کہ کچھ کرنے میں خلل پیدا ہوتا ہے لہذا سب سے پہلے اس مسلہ کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا اس کے حل کے بغیر سب اچھا کی بات نہیں کی جا سکتی چین کی بانسری نہیں بجائی جا سکتی لہذا کرتا دھرتاؤں کو چاہیے کہ وہ جب بہتر ماحول اور خوشحالی کی خواہش رکھتے ہیں تو روٹھے ہوؤں کو منائیں سیاسی استحکام لانے کی کوشش کریں سب کو ساتھ لے کر منزل کی طرف قدم بڑھائیں تنہا سفر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ راستے کبھی بھی ہموار نہیں ہوتے۔ وطن عزیز میں یہ جو ہاہاکار مچی ہوئی ہے اسے ختم کرکے ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہوا جائے محبت سے پیار سے اور گفتگو سے متحد ہوا جائے تب ہی کوئی نئی سویر طلوع ہو گی لہذا اہل اختیار کواپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے ان کے مقابل جو فریق ہے اسے بھی اپنے رویے اور طرز عمل پر غور کرنا ہو گا کہ جو ان کے ساتھ ہمیشہ چلنے کو کہہ رہے تھے وہ پیچھے رہ گئے۔اہل دانش کہتے ہیں کہ جب عقل کا دامن چھوڑ دیا جائے تو حماقت باقی رہ جاتی ہے اور حماقت کبھی بھی راہ کی دشواری دُور نہیں کرتی لہذا فریقین آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے بغل گیر ہو جائیں عوام کی یہی آرزو ہےوہ مضطرب نہیں رہنا چاہتے وہ اپنے مسائل سے چھٹکارا چاہتے ہیں ۔
وہ جب مغرب و یورپی ممالک کو دیکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگ ہنسی خوشی رہ رہے ہیں پُر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ قانون و آئین کے مطابق جی رہے ہیں ۔ ان کے خوبصورت شہر قصبے گاؤں اور سڑکیں صاف ستھری ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی ویسا ہی ہو ۔احترام آدمیت کی مثالیں قائم ہوں۔ایسا ناممکنات میں سے نہیں اس کے لئے فقط توجہ ہمدردی اور خلوص چاہیے مگر افسوس ہمارے ہاں یہ ناپید ہے اہل اقتدار کو اقتدار سے لگاؤ ہے عوامی مسائل سے نہیں کہ انہیں اٹھہتر برس کے بعد ہھی ختم کرنے کی طرف آیا جائے یہاں تو حکومتیں ہی مشروط بنتی ہیں لہذا وہ ڈانواں ڈول رہتی ہیں ایسے میں کیا ہو سکتا ہے کیسے خواہشوں کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں انصاف بھی کیسے مل سکتا ہے اور لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جا سکتا ہے ۔بس یہی کچھ اب تک ہوتا آیا ہے ۔اس وقت جو ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے ایک دوسرے کو ”تھلے“ لگانے رُلانے اور تڑپانے کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں جبکہ عوام دہائی دے رہے ہیں کہ انہیں مہنگائی قبضہ گروپوں سینہ زوروں تھانوں پٹوار خانوں کی زیادتیوں اور دھوکا بازیوں سے نجات دلائی جائے مگر اس حوالے سے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے تاکہ لوگ مشتعل نہ ہوں اور یہ سمجھیں کہ اقتدار والوں نے ان کی سُن لی ہے لہذا وہ آئندہ بھی کچھ کریں گے مگر ہوتا اتنا ہی ہے جس سے سانسیں بحال رہیں اور حرکت رہے لہذا عوام کی بہت بڑی تعداد یہ سب دیکھتے ہوئے نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کرنے لگی ہے اسے حکمران طبقوں پر اعتبار نہیں رہا کہ وہ ان کو روشن مستقبل دے سکیں گے یہی وجہ ہے کہ وہ احتجاج کے راستے پر آتے جارہے ہیں جنہیں روکنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں مگر لگ رہا ہے کہ اب تیر کمان سے نکل چکا ہے کیونکہ وہ سب کو آزما چکے ہیں بھگتا چکے ہیں مگر کسی نے بھی ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا بلکہ نمک چھڑکا ہے ۔ہمیشہ انہوں نے یہی بتایا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے وہ نازک دور سے گزر رہا ہے مگر یہ نازک دور ختم ہی ہونے میں نہیں آرہا خزانہ بھرنے میں ہی نہیں آ رہا اس کی وجہ صاف ہے کہ ہر ایک حکمران نے اپنی جیبیں بھریں اور بھاری قرضے لے کر ملک کا نظام چلایا غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کیے گئے قرضوں سے کچھ حاصل نہ ہونے سے واپسی مشکل سے مشکل ہوتی گئی آج ان پر سود اتنا بڑھ چکا ہے کہ جنہیں اتارنا ناممکن دکھائی دیتا ہے اس کے لئے شہ دماغوں نے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا ہے اس کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں نظر آرہا ہے کہا مگر یہی جا رہا ہے کہ بہتری آرہی ہے سطحی سا ایک خوش نمامنظر ابھر بھی رہا ہے ۔سیانے کہتے ہیں کہ ”اُس سونے نوں کیہ کرنا جہیڑا کنان نوں وڈ وڈ کھاوے “ اُس دلکشا منظر کے ابھرنے کا کیا کرنا جو بعد میں افسردگی میں بدل جائے ۔ جب تک ملک کے اندر صنعتوں کا جال نہیں بچھا دیاجاتا تب تک حقیقی خوشحالی اور خوشی نہیں آسکتی بے روزگاری و غربت بھی ختم نہیں ہو سکتی تعلیم کو مفت نہیں کیا جاتا تو جہالت بھی کم نہیں ہو سکتی مگر اہل اقتدار اسے شاید کم نہیں ہونے دینا چاہتےتاکہ غریب عوام کچھ نہ سمجھیں اور یونہی ”گھمن گھیریاں“ کھاتے رہیں مگر جہالت کو اب ختم کرنے کا سوشل میڈیا نے بیڑا اٹھا لیا ہے وہ تہہ در تہہ چھپی دانش و دانائی کو سامنے لارہا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ وہ دور گیا جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے لہذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق دینے کا آغاز کر دیں ۔انصاف عام اور مفت کر دیں ذرائع پیداوار ہنگامی بنیادوں پر استوار کریں غیر پیداواری منصوبوں کو روک دیں یا پچاس فیصد کر دیں بدعنوانی پر قابو پا کر اس پیسے کو لوگوں کی فلاح وبہبود پر خرچ کریں ذہنوں کو ایسے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے !

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button