
قانون سازوں اور ماہرین کے درمیان یہ سوال زیرِ غور ہے کہ پرائیویسی یا رازداری کے تحفظات کو ختم کیے بغیر مؤثر نگرانی اور تحفظ کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس پیچیدہ مسئلے پر یورپی یونین میں مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں اور اسی کے سبب قانون سازی میں تاخیر ہو رہی ہے۔
گیارہ سالہ آئرس تنہائی کا شکار تھی اور دوستوں کی تلاش میں تھی جب اس نے ایک مرد سے آن لائن بات چیت شروع کی۔ اسے لگا کہ آخرکار کوئی ایسا شخص ملا ہے جس پر وہ بھروسہ کر سکتی ہو۔
لیکن جب اس شخص نے دھمکی دی کہ اگر اُس نے اپنی برہنہ تصویر نہ بھیجیں تو وہ رابطہ ختم کر دے گا، تو آئرس نے بالآخر رضامندی ظاہر کر دی، کیونکہ وہ دوبارہ تنہا ہونے سے ڈر رہی تھی۔
پھر اس شخص نے اسے مزید تصاویر بھیجنے پر اکسایا۔ اس شخص نے کہا کہ اگر آئرس مزید تصاویر بھیجنے سے انکار کرے تو وہ یہ تصاویر اس کے خاندان کو بھیج دے گا۔
آئرس اس لڑکی کا اصل نام نہیں ہے بلکہ اس لڑکی نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے اپنا نام تبدیل کیا۔ اس نے بلیک میلنگ اور آن لائن بدسلوکی کی اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا، ”تین سال جو کچھ اُس نے چاہا، جب چاہا میں نے کیا۔‘‘

چائلڈ ابیوز کے خلاف کریک ڈاؤن
یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر کے باہر برسلز میں آئرس اور دیگر بچوں کے کیسز دستاویزی شکل میں اسکول کی میزوں پر رکھے گئے۔ یہ بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم گروپ کی طرف سے ہونے والے مظاہرے کا حصہ ہے۔ یہ مظاہرین اس بارے میں اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آن لائن تحفظ کے متنازع قوانین میں تاخیر کے باعث کئی بچے جنسی استحصال کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ای یو بلاک کے رکن ممالک نے ایک بار پھر متنازعہ آن لائن تحفظ کے قوانین پر فیصلوں میں تاخیر کی ہے جس سے ٹِیک کمپنیوں کو بچوں کے جنسی استحصال کے ثبوت کے لیے تصاویر ، ویڈیوز اور لنکس کو اسکین کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔
بچوں کے تحفظ کی مہم چلانے والے گروپ ’’یورو چائلڈ‘‘ میں پالیسی کے کام کی قیادت کرنے والی فابیولا باس پالوماریس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ان تین سالوں کی تاخیر میں بہت سے بچے مجرموں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔‘‘
انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کا دعوی ہے کہ پچھلے سال بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق زیادہ تر ویب سائٹس یورپی یونین کے ممالک سے سامنے آئیں اور دنیا بھر میں 6 کروڑ سے زائد ایسی تصاویر اور ویڈیوز رپورٹ کی گئیں۔
کیا رازداری خطرے میں ہے؟
جرمنی یورپی یونین کی ان ریاستوں میں شامل ہے جو اس قسم کے قوانین کی حمایت سے انکاری ہیں۔اگر آپ ٹک ٹاک اسکرولنگ کرتے ہیں یا پھر گوگل سرچ کرتے ہیں، تو فوری طور پر آپ کے سامنے ایسے دعوے مل جائیں گے کہ ای یو آپ کی نگرانی کر رہا ہے تاہم ایسا نہیں ہے۔

جرمن وزیر انصاف اشٹیفنی ہوبگ نے ایک حالیہ بیان میں کہا، ”نجی مواصلات کو کبھی بھی عام شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ریاست میسنجر سروسز کو پیغامات کی ترسیل سے پہلے مشتبہ مواد کے لیے بڑے پیمانے پر اسکین کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ موجودہ ای یو کونسل کی شش ماہی صدارتی ذمہ داری سھنبھالے ہوئے ملک ڈنمارک کی طرف سے قلم بند کی گئی تازہ ترین تجویز کے تحت، ہائی رسک سمجھی جانے والی ٹیک فرموں کے تمام پیلٹ فارمز پر موجود لنکس، تصاویر اور ویڈیوز کو اسکین کرنے کا حکم دیا جا سکتا ہے، اس میں ٹیکسٹ میسجز تاہم شامل نہیں ہیں، تاکہ ان کے پلیٹ فارمز پر شیئر کیے گئےبچوں کے مشتبہ جنسی استحصال کے مواد کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ کی جا سکے۔
قانونی خلا کا خطرہ؟
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن فابیولا پالوماریس نے ”رازداری بمقابلہ تحفظ‘‘ کی بحث پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ محفوظ ٹیکنالوجی کی تیاری پر توجہ دی جائے، نہ کہ قانونی رکاوٹوں پر۔

اگر قانون سازی نہ ہوئی تو بچوں پر بوجھ پڑے گا نہ کہ ان پلیٹ فارمز پر جو جرائم کے سہولت کار بنتے ہیں۔
یورپ میں ایک قانونی خلا پیدا ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ ٹیک کمپنیاں اب تک رضاکارانہ طور پر مشتبہ مواد رپورٹ کر رہی ہیں لیکن یہ استثنا اگلے اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔
یورپی یونین کے موجودہ صدارتی ملک ڈنمارک سخت قوانین کا حامی ہے۔ تاہم جر منی جیسے ” محتاط‘‘ ممالک کی اس بارے میں حمایت حاصل کرنا بڑا چیلنج ہے۔ پرائویسی کے تحفظ کی کوششوں کے باوجود برلن نے تاحال ان قوانین کی حمایت نہیں کی ہے۔ اگر قانون منظور ہو بھی جائے تو اس پر عمل درآمد میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔


