بین الاقوامیاہم خبریں

کرناٹک ووٹ چوری سکینڈل: نریندر مودی کی جماعت بی جے پی اور الیکشن کمیشن کی بدعنوانی بے نقاب

ہزاروں ووٹرز کے نام جعلی طریقے سے حذف کیے گئے، اور ان تبدیلیوں کی بنیاد پر انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی

نئی دہلی: بھارت میں کرناٹک ریاستی انتخابات سے متعلق ایک سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا ہے، جس میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور الیکشن کمیشن کے کردار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (SIT) کی رپورٹ نے 2023 کے ریاستی انتخابات کے دوران ووٹر لسٹ میں دھاندلی، جعل سازی اور غیر قانونی طریقے سے ووٹوں کا چوری کرنے کے واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔

ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری

رپورٹ کے مطابق، کرناٹک کے مختلف حلقوں میں ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر رد و بدل کی گئی۔ ہزاروں ووٹرز کے نام جعلی طریقے سے حذف کیے گئے، اور ان تبدیلیوں کی بنیاد پر انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پورٹل پر 75 مختلف موبائل نمبرز سے جعلی اکاؤنٹس بنا کر ہزاروں جعلی درخواستیں جمع کرائی گئیں، جنہوں نے ووٹر لسٹ میں تبدیلی کی اجازت دی۔

اس کے علاوہ، ضلع کالبرگی میں قائم ایک ڈیٹا سینٹر سے متعدد لیپ ٹاپس اور دیگر الیکٹرانک آلات برآمد کیے گئے، جنہیں ووٹر لسٹ میں ریکارڈ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ تمام سامان اس بات کا غماز ہے کہ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری ایک منظم اسکیم کے تحت کی گئی تھی۔

ووٹرز کی خرید و فروخت کا انکشاف

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کرناٹک کے الند حلقے میں ہر ووٹ حذف کرنے کے لیے 80 روپے فی ووٹر کی ادائیگی کی گئی تھی۔ اس عمل کے دوران بی جے پی کے اہم رہنماؤں، سبھاش گٹیدار، ہرشنند اور سنتوش کے گھروں سے 7 لیپ ٹاپس اور متعدد دستاویزات برآمد کی گئیں، جو اس اسکینڈل میں ملوث ہونے کے ثبوت ہیں۔

تحقیقات کے مطابق، دسمبر 2022 سے فروری 2023 کے دوران مجموعی طور پر 6,018 جعلی درخواستیں الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئیں، جن کے بدلے تقریباً 4.8 لاکھ بھارتی روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ یہ رقم ووٹر لسٹ میں جعلی درخواستیں جمع کرنے اور ووٹوں کی خرید و فروخت کے لیے استعمال کی گئی تھی۔

رپورٹ کا اثر اور اپوزیشن کا ردعمل

رپورٹ کے مطابق، حذف کیے گئے 6 ہزار ووٹرز میں سے صرف 24 افراد نے خود درخواست دی تھی، باقی تمام درخواستیں جعلی تھیں۔ اس انکشاف نے بھارتی انتخابی نظام کی شفافیت پر شدید سوالات اٹھا دیے ہیں اور یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بھارت میں انتخابی عمل میں مبینہ طور پر دھاندلی کی جا رہی ہے۔

بھارتی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس رپورٹ پر سخت ردعمل آیا ہے۔ کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو ووٹ چوری اسکینڈل کے الزامات کی تصدیق قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ جمہوریت پر براہِ راست حملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔

کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے اس رپورٹ پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی دور میں 80 روپے فی ووٹر کی خرید و فروخت جمہوریت کی توہین ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ نے ووٹر لسٹ میں منظم اور فنڈڈ دھاندلی کی مہم کو بے نقاب کر دیا ہے، جو بھارتی جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

سیاسی مبصرین کی رائے

سیاسی مبصرین کے مطابق، ایس آئی ٹی کی رپورٹ نے بھارتی انتخابی نظام کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کی غیر جانب داری پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اس اسکینڈل نے بھارتی سیاست میں ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے، اور اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ حقائق کا پتا چل سکے اور اس دھاندلی کے ذمہ دار افراد کو بے نقاب کیا جا سکے۔

الیکشن کمیشن اور بی جے پی کا موقف

اب تک الیکشن کمیشن اور بی جے پی کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم سیاسی حلقوں میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا بھارتی انتخابی ادارہ اس نوعیت کی بدعنوانیوں کے خلاف موثر کارروائی کرے گا یا نہیں۔ اس وقت بھارت میں انتخابی دھاندلی کے الزامات عام ہیں، اور یہ رپورٹ اس بات کی غماز ہے کہ بھارت کے انتخابی نظام میں کس قدر کمزوری اور بدعنوانی موجود ہے۔

حکومتی ردعمل کی کمی اور جمہوریت کی تباہی

سکینڈل کے بعد حکومت کی جانب سے کوئی واضح ردعمل سامنے نہ آنے پر اپوزیشن نے حکومت پر تنقید کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس اسکینڈل کی تحقیقات نہیں کی جاتیں، تو بھارت کے انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد مزید کم ہو جائے گا، جو کہ جمہوریت کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔

نتیجہ:

کرناٹک ووٹ چوری سکینڈل نے بھارت کے انتخابی نظام کی شفافیت اور بی جے پی کی اخلاقی حیثیت پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اپوزیشن نے اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور بھارتی عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمہوریت کے دفاع کے لیے آواز اٹھائیں۔ اس واقعے نے بھارتی سیاست اور جمہوریت کے لیے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے، جس کی تحقیقات ضروری ہیں تاکہ اس اسکینڈل کے پیچھے چھپے ہوئے حقائق کا پتا چل سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button