پاکستاناہم خبریں

پاکستان اور آرمینیا کے درمیان سفارتی تعلقات قائم: ایک تاریخی پیش رفت

’اسے ایک تاریخی قدم قرار دیتے ہوئے، دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد سے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا

تیانجن (چین) / اسلام آباد – پاکستان اور آرمینیا نے ایک دوسرے کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں، جسے پاکستان کی عالمی سفارتی پالیسی میں ایک اہم اور تاریخی تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان باضابطہ اعلامیے کا تبادلہ چین کے شہر تیانجن میں ایک خصوصی تقریب کے دوران ہوا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور آرمینیا کے وزیر خارجہ آرات میرزوئین نے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے، جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات قائم ہو گئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ:

’’اسے ایک تاریخی قدم قرار دیتے ہوئے، دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد سے اپنی وابستگی کا اعادہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک باہمی احترام، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے اصولوں کے تحت اپنے تعلقات کو فروغ دیں گے۔‘‘

تعلقات کی راہ میں رکاوٹیں: ایک تاریخی جائزہ

یہ پیش رفت اس اعتبار سے غیر معمولی ہے کہ پاکستان اور آرمینیا کے درمیان اب تک رسمی سفارتی تعلقات موجود نہیں تھے۔ اس کی بڑی وجہ نگورنو کاراباخ کا علاقائی تنازع رہا ہے، جہاں آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان کئی دہائیوں سے کشیدگی جاری ہے۔ پاکستان، آذربائیجان کا قریبی اتحادی رہا ہے اور اس نے ہمیشہ اس معاملے میں آذربائیجان کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔

نگورنو کاراباخ، جو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے، 1990 کی دہائی میں آرمینیائی افواج کے زیرِ قبضہ چلا گیا تھا، جس کے بعد وہاں کئی خونریز جنگیں ہوئیں۔ پاکستان نے آرمینیا کے اس قبضے کو تسلیم نہیں کیا اور اسی تناظر میں اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے گریز کیا گیا۔

اسی طرح، آرمینیا کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے مؤقف کی حمایت بھی ایک اور حساس نکتہ رہی ہے، جس نے پاکستان میں آرمینیا کے حوالے سے تحفظات کو مزید تقویت دی۔

نئی جہت، نئے امکانات

حالیہ اقدام کو نہ صرف خطے میں سفارتی توازن کی نئی شکل قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بالغ نظری پر مبنی قدم بھی سمجھا جا رہا ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق، دونوں وزرائے خارجہ نے تجارت، معیشت، تعلیم، ثقافت اور سیاحت جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع امکانات پر تبادلہ خیال کیا۔

تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا:

’’پاکستان دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئے خطوط پر استوار کرنے کا خواہاں ہے، اور ہم آرمینیا کے ساتھ مثبت اور تعمیری تعلقات کے آغاز پر خوش ہیں۔ یہ قدم ہماری بین الاقوامی خارجہ پالیسی کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

دوسری جانب، آرمینیا کے وزیر خارجہ آرات میرزوئین نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان اور آرمینیا نہ صرف دوطرفہ تعاون کو فروغ دیں گے بلکہ عالمی سطح پر بھی قریبی رابطہ قائم کر کے امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کریں گے۔

خطے میں اثرات اور بین الاقوامی تاثر

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پیش رفت جنوبی قفقاز اور جنوبی ایشیا میں سفارتی حرکیات کو ایک نئی سمت دے سکتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بدلتے ہوئے جغرافیائی حقائق اور سفارتی ضروریات کے تحت پرانی دشمنیوں کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، پاکستان کا یہ قدم اس عالمی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

اسلامی دنیا میں آذربائیجان کے مضبوط اتحادی ہونے کے باوجود، پاکستان کا آرمینیا کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ایک متوازن اور مستقبل پر مبنی پالیسی کا اشارہ ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان باہمی فائدے کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کی ساکھ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

آگے کا راستہ: کیا توقع کی جا سکتی ہے؟

توقع ہے کہ آنے والے مہینوں میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں سفارت خانے کھولنے کے حوالے سے عملی اقدامات کریں گے۔ اس کے علاوہ مختلف شعبہ جات میں وفود کے تبادلے اور باہمی معاہدوں پر بھی کام شروع ہو سکتا ہے۔

آرمینیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی سے پاکستان کے لیے وسطی ایشیا اور یورپی یونین کے ساتھ مزید اقتصادی و سفارتی رابطے بھی آسان ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر اس کا استعمال ایک "بریج اسٹیٹ” کے طور پر کیا جائے۔


خلاصہ

پاکستان اور آرمینیا کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام ایک تاریخی، جرات مندانہ اور دوراندیش فیصلہ ہے جو کہ پاکستان کی بین الاقوامی حیثیت اور خارجہ پالیسی کے ارتقا کی علامت ہے۔ اگرچہ ماضی میں اس تعلق کے راستے میں کئی سیاسی اور نظریاتی رکاوٹیں تھیں، مگر حالیہ قدم مستقبل کے دروازے کھولنے کی ایک سنجیدہ کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اب یہ دونوں ممالک پر ہے کہ وہ اس سفارتی بنیاد پر کیا عمارت کھڑی کرتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button