
برطانوی وزیرِاعظم نے نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ ایک واقعی اہم معاہدہ ہے، کیونکہ یہ آٹھ ارب پاؤنڈ (تقریباً 10.7 ارب ڈالر) کے آرڈرز پر مشتمل ہے… یہ کام 10 سال تک جاری رہے گا، جس دوران (یوروفائٹر) ٹائفون طیارے تیار کیے جائیں گے، اس لیے یہ ہمارے ملک کے لیے بہت بڑی بات ہے۔‘‘
برطانوی وزارتِ دفاع نے کہا کہ یہ آرڈر، جس کے تحت 20 یوروفائٹر طیارے شامل ہیں، "ایک جنریشن میں سب سے بڑا لڑاکا طیارہ معاہدہ” ہے، جو ترکی کی جنگی صلاحیتوں کو مضبوط کرے گا اور "ایک اہم خطے میں نیٹو کی طاقت کو بڑھائے گا۔”
اسٹارمر نے ترک دارالحکومت میں کہا، "یہ نیٹو کا جنوب مشرقی محاذ ہے، لہٰذا برطانیہ کے ساتھ اس صلاحیت کا موجود ہونا نیٹو کے لیے انتہائی اہم ہے۔”

ترکی، برطانیہ دفاعی تعاون کی نئی علامت
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس معاہدے کو برطانیہ کے ساتھ دفاعی تعاون کی ایک نئی علامت قرار دیا۔
انہوں نے کہا، "ہم اس کو اپنے دو قریبی اتحادیوں کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کی ایک نئی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔”
تاہم یہ اعلیٰ سطحی دورہ ایک جاسوسی اسکینڈل کے باعث متاثر ہوا، جو اتوار کی رات اس وقت منظرِ عام پر آیا جب ایک ترک عدالت نے استنبول میں قید اپوزیشن میئر پر برطانیہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔
ترک وزارتِ دفاع کے مطابق اسٹارمر اپنے وزیر دفاع جان ہیلی اور برطانوی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ہارو اسمیتھ کے ہمراہ انقرہ پہنچے، جن کا ترک ہم منصبوں نے خیرمقدم کیا۔

ترک فضائیہ کو جدید بنانے کی کوشش
ترکی اپنی فضائیہ کو جدید بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور یورپ میں تیار کردہ 40 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ طیارے برطانیہ، جرمنی، اٹلی اور اسپین کی مشترکہ پیداوار ہیں۔
ایک ترک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ برطانیہ پیر کے روز کچھ طیارے حوالے کرے گا، تاہم اس کی تعداد نہیں بتائی گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غالب امکان ہے کہ یہ دو طیارے ہوں گے۔
فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر ایرن اسٹائن نے اے ایف پی کو بتایا، "ترکی اور یوروفائٹر کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔” انہوں نے کہا کہ انقرہ نے یورپی کنسورشیم میں شامل ہونے کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا، کیونکہ وہ امریکی لڑاکا طیارہ پروگرام پر توجہ دے رہا تھا۔
انہوں نے کہا، "انقرہ کو کئی بار دعوت دی گئی کہ وہ کنسورشیم میں شامل ہو یا مساوی رکن بنے، مگر انہوں نے ایف-35 پروگرام کا انتخاب کیا۔”
جب واشنگٹن نے 2019 میں روسی ساختہ ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے پر انقرہ کو ایف-35 لڑاکا طیارہ پروگرام سے نکال دیا، تو ترکی نے اپنی توجہ یورپ کی جانب موڑ لی۔



