
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک بار پھر خطے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، جب پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں واضح الفاظ میں خبردار کیا کہ اگر افغانی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوئی تو پاکستان کو ضرورت پڑی تو افغانستان کے اندر تک جا کر جواب دینا پڑے گا — حتیٰ کہ فضائی حملے (سٹرائیکس) بھی کئے جا سکتے ہیں۔
وزیرِ دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان نے برادرانہ نیت اور خلوص کے ساتھ امن کے راستے کھولنے کی کوششیں کیں، تاہم کابل کی نیت اب "ثابت” ہو گئی ہے اور وہ مذاکرات میں مخلص نہیں رہا۔ خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ کابل میں قابلِ اعتماد جواب نہیں آیا اور بعض مواقع پر جب حتمی معاہدات بننے لگتے تو کابل سے رابطہ منقطع ہو جاتا تھا، جس سے ان پر شکوک پیدا ہوئے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر طالبان نے اپنی باگ ڈور بیرونی عناصر — جن کا انہوں نے اشارہ طور پر ہند کو بھی کیا — کے حوالے کر دی تو حالات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ وزیرِ دفاع نے اس بات کا ازراہِ تردید اعلان کیا کہ پاکستان طالبان حکومت کو "مکمل طور پر ختم” کرنے یا انہیں "غاروں میں دھکیلنے” کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، مگر ساتھ ہی انہیں سخت انتباہ بھی دیا کہ اگر وہ پاکستان یا پاکستانی مفادات کو خطرے میں ڈالیں گے تو جواب سے معاف نہیں کیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات عطااللہ تارڑ نے منگل کی شب دیر گئے اعلان کیا تھا کہ استنبول میں ہونے والے مذاکرات "کسی قابلِ عمل نتیجے” تک نہیں پہنچ سکے۔ اسی پس منظر میں خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکراتی عمل کے دوران کابل کی جانب سے غیر سنجیدہ رویّے نے اعتماد کو مجروح کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نے بنیادی طور پر اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ ٹی ٹی پی (تحریکِ طالبانِ پاکستان) کو ان کی سرزمین استعمال کرنے سے روکا جانا چاہیے، مگر تحریری ضمانت دینے سے گریز کیا گیا۔
وزیرِ دفاع نے مذاکرات میں ٹی ٹی پی کو شامل کرنے کے امکان کو بالکل خارج قرار دیا اور کہا کہ تحریکِ طالبانِ افغانستان کی بھی ابھی وہ حیثیت نہیں کہ وہ پوری طرح کنٹرول قائم کر سکے۔ ان کا مؤقف تھا کہ افغانستان "حصّہ بخرہ” کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں مختلف دہشت گرد عناصر سرگرم ہیں اور وہ مکمل طور پر ریاستی حیثیت کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
سخت بیان — ٹورا بورا کا حوالہ اور عسکری خدشات
خواجہ آصف نے اپنے سخت بیانیے میں ایک تصویری اظہار بھی کیا کہ اگر طالبان پھر افغانستان یا خطے میں دوبارہ جارحیت اختیار کریں تو انہیں "ٹورا بورا میں ماضی کی شکست” کی یاد دلانے میں ذرہ برابر تامل نہیں کیا جائے گا — بطورِ علامت انہوں نے کہا کہ ماضی کے مناظر دوبارہ پیش کرنا بین الاقوامی سطح پر ایک واضح منظر ہوگا۔ ان کے الفاظ میں طالبان کی دھمکیاں "پرفارمنس سرکس” کے مترادف ہیں اور پاکستان نے اب مزید برداشت نہیں کرنا۔
وزیرِاعظم کے بیان اور وفاقی وزارتِ اطلاعات کی تشہیر کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ پاکستان امن کو موقع دینے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے، مگر قومی تحفظ کے تقاضوں اور اندرونی سلامتی کے خطرات پر وہ سخت کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ وزیرِ دفاع نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کسی ایسی کارروائی کے لیے مکمل طاقت استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر نہیں کر رہا، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ خطرات کا جواب نہ دیا جائے گا۔
سخت بیانات اور عسکری خدشات ہمیشہ سفارتی پس منظر میں کشیدگی کے امکانات بڑھاتے ہیں۔ ایسے اعلانات سے سرحدی سطح پر فوجی تیاریاں، الرٹ سٹیٹس اور سفارتی سطح پر ہنگامی رابطے متوقع ہیں۔ خطے میں توازنِ طاقت، پناہ گزینوں کی صورتحال، نقل و حمل، اور تجارت پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اگر تناؤ بڑھتا گیا۔ بین الاقوامی برادری اور علاقائی شراکت دار اس صورتِ حال پر مداخلت یا ثالثی کی پیش کش کر سکتے ہیں، مگر اس کی نوعیت اور اثرات اس وقت واضح ہوں گے جب فریقین کے اقدامات اور جوابی پالیسی واضح ہوں گی۔
اندرونی سیاسی ردِ عمل اور سلامتی کے پہلو
حالیہ بیانات سے ملکی سطح پر دفاعی حلقوں، سلامتی ایجنسیوں اور سیاسی مبصرین میں بحث متحرک ہے کہ پاکستان کو کس حد تک جارحیت یا دفاعی اقدامات اختیار کرنے چاہئیں، اور کس حد تک سفارتکاری کے ذریعے معاملات کو نمٹانا بہتر ہے۔ وزیرِ دفاع کے سخت لہجے کا مقصد بلاشبہ داخلی و بیرونی سامعین کو ایک واضح پیغام دینا بھی سمجھا جا رہا ہے — کہ پاکستان اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے مجبوراً یا رضاکارانہ طور پر خاموش نہیں رہے گا۔
دہشت گردانہ حملوں یا خودکش حملوں کے امکان پر خصوصی تشویش ظاہر کی گئی ہے؛ وزیرِ دفاع نے صاف الفاظ میں کہا کہ ایسی کارروائیاں خطے میں مزید خطرناک نتائج لائیں گی اور پاکستانی حکام اس کے ردِعمل کے لیے چوکس ہیں۔ ان انتباہات کا مقصد داخلی سطح پر بھی ممکنہ حملہ آوروں کو خبردار کرنا تھا کہ وہ پاکستان کے اندر مداخلت کی قیمت ادا کریں گے۔
تحریری اور زبانی تنبیہات عام طور پر سیاسی سطح پر دباؤ ڈالنے اور مخالف فریق کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، مگر ان کے ساتھ ساتھ غیر معمولی عسکری اقدام کے اشارے بھی تناؤ کو بڑھا سکتے ہیں۔ خواجہ آصف کے بیانات میں مذاکرات کے دوران عدم اعتماد اور کابل کی جانب سے تحریری ضمانت نہ دینے کے تذکرے اس امر کی نشان دہی کرتے ہیں کہ باہمی اعتماد کمزور ہے۔ اس پس منظر میں سفارتی چینلز کی بحالی، تیسری پارٹی ثالثی اور علاقائی فورمز میں گفتگو جلد از جلد بحال نہ ہوئی تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
عالمی نقطۂ نظر اور آئندہ لائحہ عمل
عالمی برادری عموماً ایسے مواقع پر تحمل، مذاکرات اور ثالثی کی طرف زور دیتی ہے جبکہ علاقائی ممالک اپنے محفوظ مفادات کی حفاظت چاہتے ہیں۔ اس مرحلے پر ممکنہ آئندہ راستے میں شامل ہو سکتے ہیں: دو طرفہ مذاکرات کی بحالی، ثالثی کے لیے علاقائی یا بین الاقوامی پلیٹ فارمز کی تلاش، یا محدود سفارتی پابندیاں و سیاسی دباؤ۔ تاہم اگر بدستور سرحدی استعمال یا دہشت گردانہ کارروائیاں سامنے آئیں تو ردعمل میں فوجی آپریشنز یا فضائی کارروائی کے امکانات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا — جیسا کہ وزیرِ دفاع نے اشارہ کیا۔
حالیہ بیانیہ نے ظاہر کیا ہے کہ پاکستان نے امن کے لیے مذاکراتی راستہ اختیار کیا مگر اعتماد سازی کے فقدان نے رویّے سخت کر دیے۔ وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کے بیانات ایک واضح پیغام ہیں کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور شہری سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اور اگر داخلی یا سرحدی خطرات منہاجِ عمل میں آئیں تو جواب دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا۔



