پاکستاناہم خبریں

پاکستان میں اکتوبر کے دوران سیکیورٹی فورسز کی بڑی کارروائیاں — 355 شدت پسند ہلاک، ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ریکارڈ

رپورٹس کے مطابق، کارروائیوں کے دوران نہ صرف دہشت گردوں کے کئی محفوظ ٹھکانے تباہ کیے گئے

رپورٹ وائس آف جرمنی اردو نیوز

پاکستان میں سیکیورٹی فورسز نے رواں سال اکتوبر کے مہینے میں ملک بھر میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران 355 شدت پسندوں کو ہلاک کیا، جو گزشتہ دس سالوں میں کسی ایک مہینے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔اسی طرح 11 کے لگ بھگ افسر اور 100 فوجی جوان بھی شہید ہو گئے.
یہ اعداد و شمار سیکیورٹی ذرائع اور سرکاری اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹوں میں سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق یہ کارروائیاں زیادہ تر خیبرپختونخوا، بلوچستان، اور قبائلی اضلاع میں کی گئیں، جہاں دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔


دہشت گردی کے خلاف ملک گیر آپریشن میں تیزی

ذرائع کے مطابق، اکتوبر میں مجموعی طور پر 350 سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBOs) کیے گئے، جن میں سے کئی کارروائیاں شمالی وزیرستان، مستونگ، پنجگور، کوئٹہ، لکی مروت، باجوڑ، اور ڈی آئی خان کے علاقوں میں ہوئیں۔
رپورٹس کے مطابق، کارروائیوں کے دوران نہ صرف دہشت گردوں کے کئی محفوظ ٹھکانے تباہ کیے گئے بلکہ بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود، بارودی سرنگیں، اور خودکش جیکٹس بھی برآمد کی گئیں۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ مہینے کے دوران درجنوں ہائی پروفائل دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا جن کا تعلق تحریکِ طالبان پاکستان (TTP)، اسلامک اسٹیٹ (IS-K) اور بلوچ لبریشن آرمی (BLA) سے تھا۔


دہشت گردی کی لہر اور فورسز کا ردعمل

رواں سال پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کی رپورٹ کے مطابق، 2024 کے دوران اب تک ملک بھر میں 500 سے زائد حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سیکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں دونوں کو نشانہ بنایا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستانی شدت پسند گروہوں کو نئی پناہ گاہیں اور سہولتیں میسر آئی ہیں، جس سے سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان نے متعدد بار افغان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، تاہم اسلام آباد کے مطابق "کابل کی جانب سے مؤثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔”


سیکیورٹی فورسز کے جانی نقصان

اکتوبر کے دوران آپریشنز میں فوج، ایف سی، پولیس اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کے اہلکاروں نے بھی بھاری قربانیاں دی ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق، مختلف جھڑپوں میں 45 سے زائد اہلکار شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق، “یہ قربانیاں قوم کی سلامتی کے لیے ہیں، اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک آپریشن جاری رہیں گے۔”


اعلیٰ عسکری قیادت کا عزم

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس میں کہا کہ “پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آخری مرحلے میں ہے۔ دشمن چاہے اندرونی ہو یا بیرونی، اسے مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔”
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ “کسی بھی قیمت پر ریاست کی رٹ بحال رکھی جائے گی، اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔”

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی حالیہ اجلاس میں سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ “ریاست دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہے۔ جو عناصر پاکستان کے امن کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، ان کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔”


عوامی ردِعمل اور ماہرین کی رائے

ملک بھر میں سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں پر عوامی سطح پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے، تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ صرف عسکری آپریشنز کافی نہیں ہوں گے۔
انسدادِ دہشت گردی ماہرین کے مطابق، “دہشت گردی کی جڑیں صرف ہتھیاروں سے نہیں کاٹی جا سکتیں۔ اس کے لیے تعلیمی، معاشی اور سماجی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سرحدی نظم و نسق کو بھی مضبوط بنانا ہو گا۔”


نتیجہ

اکتوبر میں 355 شدت پسندوں کی ہلاکت نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نئے مرحلے کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ تاہم چیلنج ابھی باقی ہے — کیونکہ سرحد پار سے دراندازی، شدت پسندوں کے نیٹ ورکس کی بحالی، اور انتہاپسندی کے نظریات کے خاتمے کے لیے ایک مربوط قومی حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستانی عوام اور فورسز کے لیے یہ پیغام واضح ہے:
امن کی قیمت قربانی ہے، اور ریاست اس قربانی سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button