کالمزپیر مشتاق رضوی

طالبان کو امن کا ایک اور موقع۔۔۔۔!! پیر مشتاق رضوی

ان مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پختہ بننے کے قصد سے مذاکرات کیے گئے تھے فریقین نے سیزفائر کو جاری رکھنے کے عزم کا مشروط اعادہ کیا تھا

"کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے "بالآخر طالبان جنگ بندی کی توسیع پر راضی ہوگئے اور پاکستان کے مؤقف کو بھی تسلیم کرلیا گیا اس سے قبل ترکیہ میں پانچ دن جاری رہنے والے پاک افغان مذاکرات ناکام ہو چکے تھے بردار ثالثی ملک ترکیہ کی درخواست پرپاکستان دوبارہ مذاکرات پر راضی ہوا اور پاکستان نے طالبان کو امن کا ایک موقع فراہم کیا ہے مذکرات سے قبل پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے طالبان رجیم کو واشگاف الفاظ میں متنبہ کیا تھا کہ” اگر معاملات طے نہیں ہوتے تو ہماری تمہاری کھلی جنگ ہو گی” لیکن استنبول مذاکرات کے نتیجہ میں عبوری رضامندی خطے میں امن کی جانب پیش قدمی ہوگی گزشتہ چھ روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبہ پر پیش رفت حاصل کرنا تھا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکا جائے اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشت گرد گروہوں خصوصاً فتنہ الخوارج ٹی ٹی پی اور فتنہ الہندوستان بی ایل اے کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا ہے یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ طالبان۔کی مسلسل ھٹ دھرمی کی وجہ سے بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی التماس پر پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ان مذاکرات کے دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پختہ بننے کے قصد سے مذاکرات کیے گئے تھے فریقین نے سیزفائر کو جاری رکھنے کے عزم کا مشروط اعادہ کیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہو: اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابلِ تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے مزید تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوں گے ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور ویریفیکیشن میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی پر سزا عائد کرنے کا بھی اختیار رکھے گا۔اس ضمن میں ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان دونوں فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں اطراف کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ جبکہ
پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ پاکستان نے یہ بھی واضح اعلان کیا ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائےپاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے گذشت روز پشاور کے دورے کے دوران واضح کیاکہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن افغان سرزمین سے دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی ان کا یہ پیغام واضح تھا: پاکستان سب سے امن چاہتا ہے، مگر اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔پاکستان کے وزیر مملکت طلال چوھدری نے بھی برملا کہا کہ اگر طالبان بھارت کی پراکسی وار میں استعمال ہوتے رہے تو افغانستان کی خود مختاری کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ تلخ حقائق ہیں کہ افغان طالبان رجیم ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دہشت گردی سے روکنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ طالبان رجیم۔ ٹی ٹی پی کو مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، افغان طالبان ٹی ٹی پی کو ماہانہ 43 ہزار ڈالر فراہم کر رہے ہیں، جو دہشت گرد گروپ کے لیے اہم سطح کی مالی معاونت کی عکاسی کرتا ہے افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت کے باعث پاکستان میں دھشت گردی کے حملے بڑھ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی، القاعدہ برصغیر اے کیو آئی ایس اور بھارت ٹی ٹی پی دہشت گرد تنظیمیں خوارج کی نہ صرف بھر پور سر پرستی کر رہی ہیں بلکہ انہیں افغانستان میں امریکا کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ بھی فراہم کر رہی ہے جبکہ پاکستان نے افغان طالبان کو دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جامع پلان دیا تھا اور کالعدم ٹی ٹی پی کیخلاف ٹھوس اور فیصلہ کن کارروائی پر زور دیا۔ تاہم افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کو روکنے میں مسلسل ھٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا۔ جس نے افغانستان کی تاریخ میں طالبان کی حکومت نے ملک کے جغرافیہ اور تاریخ کو متاثر کیا ہے، اور ان کی ھٹ دھرمی نے خطے میں امن و استحکام کے لیے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ طالبان کی ھٹ دھرمی نے پڑوسی ممالک خاص طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خراب کیا ہے طالبان رجیم نے افغانستان کے تاریخی ورثے کو بھی متاثر کیا ہے، اور ان کی ھٹ دھرمی نے ملک کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو خطرے میں ڈالا ہے۔ طالبان کی ھٹ دھرمی نے خطے میں امن و استحکام کے لیے چیلنجز پیدا کیے ہیں۔افغانستان کے زیادہ تر لوگ جنگ کے خلاف ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ تین نسلوں سے جاری جنگی جنون نے افغان عوام کو بہت متاثر کیا ہے، اور وہ اب امن اور استحکام کی تلاش میں ہیں اور وہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ تاہم، کچھ لوگ اب بھی لیکن طالبان رجیم ٹی ٹی پی جیسی دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرتے ہیں، جو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں افغانستان کے عوام کو یہ بھی احساس ہے کہ ان کی حکومت کو پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے کام کرنا چاہیے، اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ علاقائی امن اور خطے کی سلامتی کے سلسلے پاک افغان جنگ بندی میں برادر اسلامی ممالک قطر اور ترکیہ نے ثالثی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں مدد کی اور فوری جنگ بندی کرائی تھی قطر نے اپنی ثالثی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پاک افغان جنگ بندی معاہدے میں مثبت کردار ادا کیا۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا تھااور امید ظاہر کی کہ یہ اقدام سرحدی تناؤ کے خاتمے اور خطے میں پائیدار امن کی مضبوط بنیاد رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
ترکیہ نے بھی ثالثی کا کردار ادا کیا اور دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی اور تعاون کے عمل کو مزید مستحکم بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ترکیہ کی وزارت خارجہ نے جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ اقدام خطے میں امن و استحکام کے حصول میں مددگار ثابت ہوگا دیگر ممالک جیسے کہ عمان، سعودی عرب، چین، روس، اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاک افغان جنگ بندی معاہدے کا خیرمقدم کیا قطر اور ترکیہ کی ثالثی کو سراہا تھا استنبول میں حالیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد ترکیہ کی درخواست پر پاک افغان مذکرات کی دوبارہ بحالی سے کئی توقعات وابستہ ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا مقصد خوارجین کی دہشت گردی کے خاتمے، سرحدی امن کی بحالی اور تجارتی تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کے لئےافغان طالبان کی جانب سے پاکستان پر حملے کرنے والے خوارج دہشت گردوں کو قابو میں رکھنے کا پابند۔بنانا ہے پاک افغان تعلقات کے لیےدونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا اور مشترکہ مفادات کو فروغ دیا جاسکتا ہے
ترکیہ کی درخواست پر پاک افغان مذکرات کی دوبارہ بحالی سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی امید بر آئی ہے۔#

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button