کھیلاہم خبریں

افغانستان کی خواتین فٹ بال ٹیم کا خواب پھر سے حقیقت بننے کو ہے، طالبان کے اقتدار کے بعد پہلی بار اپنے ملک کی نمائندگی کے لیے میدان میں اُتریں

"یہ سب کے لیے خوشی کا لمحہ تھا۔ میرے تمام ساتھی میرے پاس آئے اور مجھے گلے لگا لیا۔ یہ ہم سب کے لیے بہت خوشگوار لمحہ تھا۔ میں اس خوشی کو افغانستان میں رہنے والوں کے نام کرتی ہوں، کیونکہ وہ خوشی کے مستحق ہیں۔"

رپورٹ وائس آف جرمنی

افغانستان کی خواتین فٹ بال ٹیم نے اپنے وطن کی زمین پر کھیلنے کے لیے چارسالہ جدوجہد کے بعد آخرکار ایک نیا باب شروع کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ طالبان کے اقتدار میں واپسی کے نتیجے میں یہ کھلاڑی تتر بتر ہو چکی تھیں اور اپنے کھیل کو جاری رکھنے کے لیے مختلف ممالک میں پناہ گزینی پر مجبور ہوگئی تھیں۔ تاہم، اب یہ کھلاڑی دوبارہ اپنے خواب کو حقیقت بنانے کی راہ پر گامزن ہیں، اور دنیا کے سامنے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے میدان میں اُترنے کے لیے تیار ہیں۔

یہ واقعہ بظاہر ایک معمولی فٹ بال میچ کی مانند نظر آ سکتا ہے، جہاں میدان میں ایک کھلاڑی گول کرنے کے بعد جشن مناتا ہے۔ تاہم، جب افغان فٹ بال کھلاڑی منوز نوری نے اپنے پہلے بین الاقوامی گول کا جشن مناتے ہوئے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے تو وہ ایک ایسا لمحہ تھا جو ان کے لیے صرف ایک کھیل کے جشن سے کہیں بڑھ کر تھا۔ نوری کا یہ جشن افغانستان کی خواتین کے لیے خوشی، آزادی اور پہچان کا اعلان تھا، جس کا طویل عرصے سے خواب دیکھ رہی تھیں۔

نوری نے میچ کے بعد کہا، "یہ سب کے لیے خوشی کا لمحہ تھا۔ میرے تمام ساتھی میرے پاس آئے اور مجھے گلے لگا لیا۔ یہ ہم سب کے لیے بہت خوشگوار لمحہ تھا۔ میں اس خوشی کو افغانستان میں رہنے والوں کے نام کرتی ہوں، کیونکہ وہ خوشی کے مستحق ہیں۔”

طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد خواتین کی زندگی کا حال

افغانستان میں 2021 میں طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد خواتین کے حقوق کو شدید نقصان پہنچا۔ خواتین کو تعلیم، کھیل اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا۔ وہ محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتیں، انہیں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، اور انہیں روزمرہ کے معمولات کے لیے سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔ خواتین فٹ بال کھلاڑیوں کو ان حالات کے بعد اپنی زندگی اور کیریئر بچانے کے لیے مختلف ممالک میں جلاوطنی اختیار کرنی پڑی۔

ان کھلاڑیوں میں سے بیشتر نے اپنے وطن کو چھوڑا اور دنیا کے مختلف حصوں میں پناہ گزینی اختیار کی۔ عارفی جیسی نوجوان کھلاڑیوں نے افغان حکومت کے نئے قوانین کی وجہ سے اپنے کھیل کی آزادی کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ ملک چھوڑا۔ عارفی، جو اب برطانیہ میں مقیم ہیں، نے کہا: "میں تقریباً ایک ماہ تک طالبان کے دور حکومت میں افغانستان میں رہی۔ ایک لڑکی کے طور پر، یہ ایک ڈراؤنا خواب تھا۔ طالبان نوجوان لڑکیوں سے شادیاں کر رہے تھے اور میرے والدین بہت پریشان تھے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا جائے۔”

افغان خواتین فٹ بال ٹیم کا دوبارہ میدان میں آنا

افغان خواتین فٹ بال ٹیم کی واپسی ایک انتہائی اہم لمحہ ہے۔ چار سال کی جلاوطنی کے بعد، نو تشکیل شدہ افغان مہاجر خواتین کی فٹ بال ٹیم نے فیفا یونائیٹس ویمنز ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے بھرپور تیاری کی تھی۔ یہ ٹورنامنٹ 23 سے 29 اکتوبر تک متحدہ عرب امارات میں ہونا تھا، تاہم متحدہ عرب امارات کی جانب سے افغان کھلاڑیوں کو ویزا دینے سے انکار کے بعد ٹورنامنٹ 26 اکتوبر سے مراکش میں شروع ہو گیا۔

یہ ٹورنامنٹ افغان خواتین فٹ بال کی فیفا کے فریم ورک میں باضابطہ واپسی کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ اس میں چاڈ، لیبیا اور متحدہ عرب امارات کے خلاف میچز شامل تھے، جنہوں نے افغان کھلاڑیوں کو اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کا ایک نیا موقع فراہم کیا۔

طالبان کی میڈیا سینسرشپ اور چیلنجز

یہ ٹورنامنٹ فیفا کے ذریعے براہ راست نشر ہونے والا تھا، لیکن طالبان کی طرف سے میڈیا کی سینسرشپ اور انٹرنیٹ کی بندش نے افغان خواتین کی اس کامیابی کو محدود کر دیا۔ طالبان کی حکومت نے سوشل میڈیا تک خواتین کی رسائی پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جس کے باعث افغان خواتین، خاص طور پر فٹ بال کھلاڑیوں کے لیے اپنے کھیل کو دکھانا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا مزید مشکل ہوگیا ہے۔

عارفی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، "ہمیں واقعی اُمید ہے کہ وہ ہمارے مقابلے دیکھ سکیں گی اور اس سے ان میں ایک تحریک پیدا ہو گی، کیونکہ اس وقت افغانستان میں بہت سی منفی چیزیں ہو رہی ہیں۔”

افغان خواتین فٹ بال ٹیم کی بھرپور تیاری اور خواب

اس ٹورنامنٹ کے ذریعے افغان خواتین فٹ بال ٹیم نے نہ صرف اپنے لیے ایک نیا باب کھولا ہے بلکہ ان تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے بھی ایک مثال قائم کی ہے جو طالبان کے سخت قوانین اور پابندیوں کی وجہ سے اپنے خوابوں کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ افغانستان میں کھیلوں کی سرگرمیاں روک دینے کے باوجود، کئی کھلاڑیوں نے اپنی محنت سے یہ ثابت کیا کہ خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے راستے کبھی بند نہیں ہوتے۔

سابق کپتان خالدہ پوپل کی قیادت میں، افغان خواتین فٹ بال ٹیم نے اپنی محنت اور جذبے کے ذریعے یہ دکھایا کہ اگر ایک قوم کے لوگ اپنی آزادی اور شناخت کے لیے لڑنے کا عزم رکھتے ہیں تو وہ کسی بھی حالت میں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔

آنے والے دنوں میں افغان خواتین فٹ بال ٹیم کا مستقبل

افغان خواتین فٹ بال ٹیم کا یہ ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا نہ صرف ان کھلاڑیوں کی محنت اور حوصلے کی کامیابی ہے بلکہ یہ افغانستان کی خواتین کے لیے ایک طاقتور پیغام بھی ہے۔ اس ٹورنامنٹ کے ذریعے وہ دنیا کو یہ بتا سکیں گی کہ افغان خواتین اپنی آواز اور صلاحیتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے آنا چاہتی ہیں، اور وہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

مستقبل میں افغان خواتین فٹ بال ٹیم کے لیے چیلنجز تو ہوں گے، لیکن اس سفر کی کامیاب ابتدا یہ ثابت کرتی ہے کہ افغان خواتین کے خواب کبھی بھی مدھم نہیں ہو سکتے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button