مشرق وسطیٰتازہ ترین

اسرائیل میں ہلچل مچا دینے والا اسکینڈل — لیک ہونے والی ویڈیو، اعلیٰ فوجی وکیل کی گرفتاری، اور نظام انصاف پر سوالات

اگست 2024 میں اسرائیل کے چینل 12 نے ویڈیو نشر کی، جس میں فوجیوں کو بدسلوکی کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔

بین الاقوامی ڈیسک / یروشلم اسپیشل رپورٹ

یروشلم: اسرائیل کے عسکری اور سیاسی حلقوں میں ایک غیرمعمولی ہلچل مچ گئی ہے جب اسرائیلی فوج (IDF) کی سابق چیف ملٹری ایڈووکیٹ جنرل میجر جنرل یفات تومر یروشلمی ایک لیک ہونے والی ویڈیو اسکینڈل میں زیرِ تفتیش اور بالآخر گرفتار ہو گئیں۔
یہ وہی ویڈیو ہے جس میں فلسطینی قیدیوں پر اسرائیلی فوجیوں کی جانب سے جنسی تشدد اور بدسلوکی کے مناظر دکھائے گئے — ایک ایسا انکشاف جس نے اسرائیل کے عدالتی، عسکری اور سیاسی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔


لیک ہونے والی ویڈیو — Sde Teiman فوجی جیل میں ظلم کی جھلک

یہ واقعہ جولائی 2024 میں سامنے آیا جب اسرائیلی دفاعی افواج کے قانونی شعبے نے Sde Teiman ملٹری جیل میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات شروع کیں۔
تحقیقات میں سامنے آیا کہ چند اسرائیلی فوجیوں نے غزہ جنگ کے دوران گرفتار قیدیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور انہیں برہنہ حالت میں ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا۔

اگست 2024 میں اسرائیل کے چینل 12 نے ویڈیو نشر کی، جس میں فوجیوں کو بدسلوکی کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
اس سے قبل مئی 2024 میں CNN نے بھی تین سیٹی بلورز کے انٹرویوز شائع کیے تھے جنہوں نے Sde Teiman جیل میں ہونے والے تشدد اور تذلیل کی تفصیل بیان کی تھی۔

انکشافات کے بعد اسرائیل نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس جیل کو مرحلہ وار بند کرنے کا عمل شروع کرے گا، مگر ویڈیو کے پھیلاؤ نے اسرائیلی فوج کے اندر ایک زبردست بحران کو جنم دے دیا۔


میجر جنرل یفات تومر یروشلمی — فوجی انصاف کی نگہبان یا مجرم؟

میجر جنرل یفات تومر یروشلمی وہ شخصیت تھیں جنہیں اسرائیلی فوج میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
تاہم، ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد وہ خود مجرمانہ تحقیقات کے دائرے میں آگئیں۔

بدھ کے روز انہیں فوجی ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے سے معطل کر دیا گیا، اور اسرائیل کی اٹارنی جنرل گالی بہارو-میارا نے سرکاری معلومات کے افشا پر باقاعدہ مجرمانہ انکوائری شروع کر دی۔

دو دن بعد، تومر-یروشلمی نے اپنا استعفیٰ پیش کیا۔
انہوں نے اپنے خط میں اعتراف کیا کہ "ویڈیو کی ریلیز کی منظوری میری جانب سے دی گئی” اور یہ کہ وہ میڈیا کو لیک ہونے والے مواد کی مکمل ذمہ داری قبول کرتی ہیں۔

ان کے مطابق،

“Sde Teiman میں فوجیوں کی تفتیش کے بعد میرے خلاف ایک اشتعال انگیز مہم شروع ہوئی۔ یہ مہم آج بھی جاری ہے اور اس نے IDF کی ساکھ اور اس کے نظام انصاف کو گہرا نقصان پہنچایا ہے۔”


سیاسی طوفان — دائیں بازو کی قیادت کا شدید ردِعمل

اسرائیل کے دائیں بازو کے سیاسی رہنما اس معاملے پر سخت برہم ہیں۔
وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا کہ وہ “تومر-یروشلمی کے خلاف تمام ممکنہ پابندیاں” عائد کریں گے۔
انہوں نے انہیں “فوجیوں کے خلاف خون کی توہین” میں ملوث قرار دیا — حالانکہ ویڈیو کی اصلیت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا۔

قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر نے اسے “قانونی آڑ میں مجرمانہ طرزِ عمل” قرار دیا اور ایک خصوصی پراسیکیوٹر کے تقرر کا مطالبہ کیا۔

وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسے “اسرائیل کی تاریخ کی بدترین PR (پبلک ریلیشنز) تباہی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ:

“یہ لیک ہمارے فوجی اداروں اور عالمی ساکھ کے لیے ایک زبردست دھچکا ہے۔”


ڈرامائی موڑ — اعلیٰ فوجی وکیل لاپتہ، پھر ساحل سے برآمد

استعفیٰ کے بعد ایک نیا ڈرامائی موڑ آیا جب تومر-یروشلمی اچانک لاپتہ ہو گئیں۔
اسرائیلی فوج اور پولیس نے کئی گھنٹے تلاش کے بعد انہیں تل ابیب کے شمالی ساحل سے زندہ مگر کمزور حالت میں برآمد کیا۔

پولیس نے بعد میں انہیں حراست میں لے لیا، اور ان پر درج ذیل مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے:

  • دھوکہ دہی اور اعتماد کی خلاف ورزی

  • سرکاری اختیارات کا غلط استعمال

  • انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا

  • سرکاری معلومات کا غیر مجاز افشا


بین الاقوامی ردعمل اور اسرائیل کی اخلاقی آزمائش

ان واقعات نے اسرائیل کے لیے ایک سنگین اخلاقی بحران کھڑا کر دیا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی اداروں، بشمول ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنسٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق:

“اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ نہ صرف اسرائیل کے فوجی قوانین بلکہ بین الاقوامی انسانی قوانین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔”


پانچ فوجی اہلکاروں پر فردِ جرم — مگر انصاف کی راہ طویل

فروری 2025 میں اسرائیلی عدالت نے پانچ فوجیوں پر جنسی زیادتی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں فردِ جرم عائد کی۔
ملزمان نے الزامات کو “جھوٹا اور سیاسی انتقام” قرار دیا۔

دوسری جانب، اسرائیلی میڈیا کے مطابق تومر-یروشلمی نے کہا ہے کہ وہ “کسی جرم کی مرتکب نہیں ہوئیں بلکہ قانون کی بالادستی کے لیے کھڑی ہوئیں۔”


تجزیہ — اسرائیل کی ساکھ پر دھبہ اور فوجی نظم و ضبط کا بحران

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اسکینڈل اسرائیل کے لیے بین الاقوامی سطح پر اخلاقی بحران کی علامت بن چکا ہے۔
یروشلم یونیورسٹی کے پروفیسر ایلان بریورمین کا کہنا ہے:

“یہ معاملہ محض ایک لیک نہیں — بلکہ اسرائیلی ریاستی اداروں کے اندر احتساب کے ٹوٹے ہوئے نظام کی علامت ہے۔”

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی قیادت کی دوغلی پالیسی — “انصاف کا دعویٰ اور ظلم کا تحفظ” — اب عالمی سطح پر بے نقاب ہو چکی ہے۔


اختتامیہ — ایک لیک جو تاریخ بدل سکتی ہے

Sde Teiman کی ویڈیو، تومر-یروشلمی کا زوال، اور اسرائیلی حکومت کا ردِعمل — یہ سب اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اسرائیل کے اندر فوجی انصاف اور اخلاقی شفافیت ایک سنگین بحران سے گزر رہی ہے۔

یہ واقعہ نہ صرف اسرائیل کی سیاسی حرکیات بلکہ اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بھی گہرے سوالات چھوڑ گیا ہے۔

“ایسی چیزیں بدترین قیدیوں کے خلاف بھی نہیں کی جا سکتیں،”
— میجر جنرل یفات تومر یروشلمی، اپنے آخری خط میں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button