پاکستاناہم خبریں

مریم نواز کی حکومت کے متنازع منصوبے: مقبولیت کی گراوٹ کا امکان؟

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ "مریم نواز کو گراس روٹ سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔"

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں وزیراعلٰی مریم نواز کی حکومت کے پہلے ڈیڑھ سال میں شروع کیے جانے والے کئی منصوبوں کو نقاد مختلف زاویوں سے پرکھ رہے ہیں۔ پنجاب حکومت نے چند ایسے بڑے اقدامات کیے ہیں جو کسی حد تک متنازع بھی ہوئے، جن میں سے سب سے پہلا اور اہم منصوبہ صوبے کے کسانوں سے گندم کی خریداری روکنا تھا، جس کے نتیجے میں کسانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور گندم کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔

کسانوں سے گندم کی خریداری بند کرنا:

پنجاب حکومت نے گندم کی خریداری کا نظام تبدیل کر لیا تھا، جس کی وجہ سے محکمہ خوراک کے ذریعے براہِ راست گندم خریدنا بند کر دیا گیا۔ اس فیصلے کا کسانوں پر براہ راست اثر پڑا اور پنجاب کے لاکھوں کسانوں نے اس کی مخالفت کی۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ایک نیا اور جدید نظام لانے کے لیے کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف کسانوں کا فائدہ ہو گا بلکہ حکومت پر بھی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔ تاہم، اس نئے نظام کی ابھی تک عملی شکل واضح نہیں ہو سکی ہے، اور مارکیٹ میں گندم کی قیمت 2000 روپے فی من تک جا پہنچی ہے جو کہ پچھلے برسوں میں پانچ ہزار روپے فی من تک پہنچ چکی تھی۔ کسانوں کے لیے یہ قیمت اتنی کم ہو گئی کہ وہ اپنے فصلوں سے خاطر خواہ منافع حاصل نہیں کر پا رہے۔

ستھرا پنجاب پروگرام اور تجاوزات کے خلاف مہم:

پنجاب حکومت نے "ستھرا پنجاب” کے نام سے ایک وسیع مہم شروع کی، جس کے تحت تجاوزات کے خلاف سخت کارروائی کی گئی۔ یہ مہم پنجاب کے بڑے شہروں تک محدود نہیں رہی بلکہ دیہاتوں تک بھی پہنچی، جہاں لوگوں نے یہ شکایت کی کہ ان کی پراپرٹیز مقامی سیاست کی وجہ سے گرادی گئیں۔ لاہور جیسے بڑے شہروں میں انار کلی، اچھرہ، شاہ عالمی اور کریم بلاک جیسے مشہور تجارتی علاقوں سے ہزاروں ریڑھی بانوں کا خاتمہ کیا گیا اور انھیں نئے جگہوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔

حکومت کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات بازاروں کی صفائی اور عوامی سہولت کے لیے کیے گئے ہیں، تاہم اس مہم کے دوران ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں، جنہیں اپنی روزی کمانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، اندرون لاہور میں بھی سینکڑوں تاجروں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ انہیں اپنی دکانیں یا کاروبار دوسری جگہ منتقل کرنا ہوں گے تاکہ شہر کی اصل حالت بحال کی جا سکے۔ ان اقدامات نے مسلم لیگ ن کے روایتی ووٹ بینک کو شدید متاثر کیا ہے اور کئی سیاسی مبصرین کے مطابق، اس سے پارٹی کی مقبولیت میں کمی آ سکتی ہے۔

پولیس مقابلے اور عوامی بے چینی:

پنجاب میں پولیس مقابلوں کا ایک نیا کلچر بھی ابھرا ہے، جس میں حالیہ مبینہ پولیس مقابلے میں "طیفی بٹ” نامی ملزم کے مارے جانے کے بعد عوامی بے چینی بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر لاہور کے اکبری منڈی کے تاجروں میں اس پولیس مقابلے کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور وکلا بھی اس معاملے پر حکومت پر تنقید کر رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے اس متنازع رویے کے اثرات دیرپا ہوں گے۔

مریم نواز کی حکمرانی اور عوامی ردعمل:

مریم نواز کی حکمرانی پر سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کی جانب سے مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ "مریم نواز کو گراس روٹ سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ "حمزہ شہباز پارٹی کی نچلی سطح کی سیاست کو بہت قریب سے سمجھتے ہیں، اور مریم نواز کے طرزِ حکمرانی سے مسلم لیگ ن کو سیاسی نقصان ہو گا۔”

اعظمیٰ بخاری کا دفاع:

وزیر اطلاعات پنجاب، اعظمیٰ بخاری نے مریم نواز کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ "جو لوگ مریم نواز اور حمزہ شہباز کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی تنازع ہوا ہے، ہم ان کے خلاف عدالت جا رہے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ "پنجاب کے ہر منصوبے میں شفافیت ہے اور ستھرا پنجاب نے صوبے میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں۔” اعظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ "جو لوگ صرف تنقید کرتے ہیں، وہ کبھی نہیں دیکھتے کہ اصل تبدیلی کہاں ہوتی ہے۔”

انہوں نے کسانوں کے لیے حکومت کی جانب سے کسان کارڈ، اپنی چھت سکیم، اور ای موبلٹی جیسے اقدامات کی مثال دی اور کہا کہ "یہ منصوبے عوام کی فلاح کے لیے ہیں اور ان سے کسانوں اور عوام کو فائدہ ہو گا۔” ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے اقدامات نے پنجاب میں ترقی اور تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے، اور حکومت اپنے وعدوں پر قائم ہے۔

سیاسی تجزیہ اور مستقبل کی پیش گوئیاں:

سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم نواز کی حکمرانی کے طرز کو "نمائشی” سمجھا جا رہا ہے، جہاں زیادہ تر زور تشہیر پر ہے اور اس کی چکا چوند اتنی زیادہ ہے کہ عوام میں شکوک و شبہات بھی بڑھ گئے ہیں۔ تجزیہ کار وجاہت مسعود نے کہا کہ "مریم نواز کی حکمرانی میں نچلی سطح پر لوگوں سے رابطے کم ہو گئے ہیں، اور اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو مستقبل میں پارٹی کو اس کا نقصان ہو سکتا ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ "اگر یہ حکومت ان اقدامات کے مثبت اثرات طویل مدت میں نہیں دیکھ پاتی، تو مسلم لیگ ن کو پنجاب میں مشکلات کا سامنا ہو گا، کیونکہ اس کا واحد ووٹ بینک اسی صوبے میں ہے۔”

نتیجہ:

مریم نواز کی حکومت کے متنازع منصوبے اور ان کے ممکنہ اثرات پر بحث جاری ہے۔ ایک طرف حکومت کے حامی اسے ترقی اور تبدیلی کے نشان کے طور پر دیکھتے ہیں، تو دوسری طرف ناقدین ان اقدامات کو سیاسی مقبولیت میں کمی کا سبب مانتے ہیں۔ یہ سوالات اب بھی برقرار ہیں کہ آیا یہ اقدامات طویل مدت میں مفید ثابت ہوں گے یا مسلم لیگ ن کی مقبولیت کو نقصان پہنچائیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button